Urdu Columns Today

Kitab, Kitab Mela Aur Hum By Dr Ahmad Saleem

کتاب، کتاب میلہ اور ہم

پچھلے دنوں لاہور میں 38 واں ’’ لاہور انٹرنیشنل کتاب میلہ ‘‘ منعقد کروایا گیا۔ اسکے منتظمین کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جو موجود ہ حالات میں بھی مسلسل ۳۸ برس سے یہ ’’نیک‘‘ کام کر رہے ہیں۔ کتابوں کے شائقین بلاشبہ تمام سال اس کتاب میلے کے منتظر رہتے ہیں اور پورے پاکستان سے اس میں شرکت کرتے ہیں ۔اس برس ایک لطیفہ بھی ہوا۔ کسی منچلے نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا دی کہ اس برس لاہور میں منعقد ہونے والے کتاب میلے میں صرف ۳۵ کتابیں اور میلے میں موجود کھانے پینے کے سٹالوں سے بارہ سو بریانیاں اور آٹھ سو شوارمے فروخت ہوئے۔ پوسٹ وائرل ہو گئی اور کئی میڈیا ہائوسز نے بنا تصدیق کیے یہ خبر اپنے چینل اور ویب سائیٹس پر نشر کر دی۔ ہمارے پڑوسی ملک نے بھی اس خبر کو حقیقت جانا اور انکے کئی بڑے قومی اخبارات اور چینلز نے اس خبر کو سٹوری بنا کر شائع کر دیا۔اس سب سے ایک جانب انکی صحافت کے معیار کی قلعی کھل گئی تو دوسرے جانب سوشل میڈیا پر موجود خبروں اور ’’ علم کے خزانوں‘‘ کا پول بھی آشکار ہو گیا۔ مکمل اعداد و شمار کی عدم دستیابی کے باوجود یہ بات بلا شبہ کہی کا سکتی ہے کہ یہ ایک کامیاب کتاب میلہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایک جانب تو ’’ کتاب‘‘ کو وہ اہمیت کبھی بھی نہیں دی گئی جس کی حقدار وہ ایک مہذب اور پڑھے لکھے معاشرے میں ہوتی ہے۔اور دوسرا یہ کہ کتاب کے شائقین اورکتاب کی محبت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔اس سے میری یہ مراد نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ’’ ہارڈ کاپی‘‘ کتب کی جگہ لے رہا ہے ( کہ یہ ایک الگ اور لمبی بحث ہے)۔اگر ای بکس کو شامل بھی کر لیا جائے تو اب پاکستان میں کتب بینی کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ ٹک ٹاک اور عجیب و غریب قسم کی ’’موبائل ایپز‘‘ لے رہی ہیں جن کا واحد مقصد وقت کی بربادی اور حلا ل حرام کی تفریق کے بغیر جلد اور آسان پیسہ کمانے کی تمنا ہے۔ اسلام کا پہلا سبق اور حکم تھا ’’ اقرائ‘‘۔ علم ہمارے دین کی بنیاد ہے۔ علم کے لیے کتاب ضروری ہے اور ہماری زندگیو ں میں کتاب ناپید ہے۔ نہ کتاب سے محبت ہے اور نہ علم حاصل کرنے کی تمنا۔ اگر علم کے بغیر شعور اور شعور کے بغیر مہذب معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے۔ جب دمشق، عرب اور بغداد کے کتب خانوں میں دنیا جہان کے علوم کی کتب موجود تھیں تو اسلام کا عروج تھا۔ آج کے پاکستان کو دیکھیں تو ہر چار میں سے ایک کالج میں لائبریری ہے( وہ بھی نام کی)، بچوں کے سوا دو لاکھ سکولوں میں صرف 481 لائبریریاں ہیں۔ہماری قومی لائبریری’’ نیشنل لائبریری آ ف پاکستان‘‘ کا قیام 1951 میں کراچی میں لیاقت لائبریری میں ہوا۔ پھر اسے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔4 اگست 1993 کو اسکا افتتاح ہوا اور 1999 میں اس میں کتب منتقل کی گئیں۔اس وقت یہاں تقریباََ دو لاکھ کتب اور 580 ہاتھ کی لکھی قدیم تحریریں موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم ترقی یافتہ اقوام کی لائبریریوں کو دیکھیں تو امریکہ کی لائبریری آف کانگریس میں 162 ملین سے زائد، برٹش لائبریری میں 150 ملین سے زائد، لائبریری آف کینیڈا میں 55 کروڑ کے قریب اور نیشنل لائبریری آف انڈیا میں سوا دو کروڑ کتب موجود ہیں۔ یہی حال کتب کی اشاعت کا ہے۔ چین میں ساڑھے چار لاکھ ، امریکہ میںتین لاکھ، برطانیہ میںدولاکھ، بھارت میں نوے ہزار اور پاکستان میں تین سے سوا تین ہزار کتب ہر برس شائع ہوتی ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری موجود لائبریریوں کو صحیح معنوں میں لائبریری کہا ہی نہیں جا سکتا۔ نہ تو ان میں کوئی جدید کتب موجود ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی جرنل خریدنے کے لیے ان کو کوئی بجٹ ملتا ہے۔ درسگاہوں اور پبلک کے لیے جو نام نہاد لائیبریریاں موجود ہیں وہ در حقیقت زیادہ سے زیادہ ’’ریڈنگ روم‘‘ ہیں جنہیں لائبریری کہنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ کچھ کاروباری حضرات جیسے تیسے ایک کتاب چھپوائیں۔ اس کو سرکاری لائیبریریوں کے لیے منظور کروا کر اپنی پسند کی قیمت پر فروخت کر کے جیبیں گرم کر سکیں۔ اگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انٹر نیٹ کے دور میں اب کتب خانوں اور کتاب کی ضرورت نہیں رہی اورتو یہ خام خیالی ہے ۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جو اقوام اس وقت دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں وہاں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولیات ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہیں لیکن پھر بھی ان اقوام میں کتاب اور کتاب گھر کی اہمیت بڑھ رہی ہے ،کم نہیں ہو رہی۔ اور انٹر نیٹ ایجاد کرنے والی زندہ اور ترقی یافتہ اقوام میں بھی یہ سب ٹیکنالوجی ’’ کتاب‘‘ کی جگہ نہیں لے سکی۔ یہی انکی ترقی کا راز ہے کیونکہ یہ سب کچھ معاشرے کو ایک سمت اور نوجوان کو پڑھنے اور علم حاصل کرنے کا شعور ، لگن اور ماحول دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے پیدا کردہ دانشور کسی ٹاک شو کو ریٹنگ تو دے سکتے ہیں مگر معاشرے کو دانش نہیں دے سکتے۔ کیا کبھی ہمارے ملک میںبھی کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا اور کتاب عمومی طور پر ہماری زندگیوں کا حصہ بن پائے گی؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ بڑی بڑی اور عالیشان ہائوسنگ سکیمیں بنانے والوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ آپ بے شک گالف کلب اور سفاری پارک بنائیں ، مگر ضروری ہے کہ اپنی سکیم میں ایک چھوٹی مگر اچھی، جدید اور فعال ’’ لائیبریری ‘‘ بھی بنائیں۔ موجودہ حکومت جہاں بہت سی نت نئی سکیموں کا اعلان کر رہی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کتب بینی کی اہمیت، شعور اور ’’کتاب کی بحالی‘‘ کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کا اعلان کرے۔ کیا پاکستان میں ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر ایک ایک لائبریری تعمیر ہو سکتی ہے ؟ تاکہ ہمارا مستقبل ، ہمارا نوجوان ٹک ٹاک اور فیس بک کی خیالی دنیا سے کتاب اور علم و آگہی کی حقیقی دنیا میں منتقل ہو سکے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *