کتاب میلہ سے ہم کیوں محروم
علم اصل زندگی ہے اور جو اہل علم ہوتے ہیں وہ معاشرے کو روشنی دیتے ہیں اور پھر معاشرے اِسی علم کی روشنی ہی میں ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ قرآن مقدس میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟ یا پھر اندھا اور دیکھنے والوں کی مثال بیان کی یقیناجس طرح سے ایک دیکھنے والا اور ایک نابینا شخص برابر نہیں ہو سکتے بعینہ ہی اسی طرح سے علم رکھنے والا اور جاہل بھی برابر نہیں ہو سکتے ۔علم یقیناً کتاب سے شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی اہل علم پیدا ہوئے وہ سب کتابوں کے پڑھنے سے اہل علم کہلوائے امام بخاری سے لے کر امام ترمذی تک اور پھر مذہب سے ہٹ کر سائنس کے علم میں جبار بن حیان سے لے کر نیوٹن تک فلسفے میں ارسطو سے لے کر حضرت علامہ اقبال تک تصوف میں حضرت امام غزالی سے لے کر حضرت نظام الدین اولیاء تک ہزاروں صوفیاء بر صغیر سمیت پوری دنیا میں گئے اسی طرح علم اور تصوف کی ایک اور یا د گار حضرت جلال الدین رومی تک سب نے کتابوں کے ذریعے علم حاصل کر کے ایک جہان آباد کیا۔ افسوس کہ آج ہمارے ملک سے کتاب بینی کا ذوق بہت کم ہو چکا ہے لیکن خدا سلامت رکھے اُن دوستوں کوکہ جو آج بھی کتابیں چھاپ کر اور لکھ کر معاشرے کو کتاب کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی ہر سال ہزاروں کتابیں مختلف موضوعات پر چھاپی جا رہی ہیں جبکہ اِد ھر پنجاب میں آجکل فوجی جوانوں کے شہرجہلم میں بک کارنر والے بھی بڑی معیاری کتابیں چھاپ رہے ہیں جو ایک بہت ہی اچھی اور قابل تقلید کاوش ہے اسی طرح جن بڑے شہروں میں سال میں ایک دودفعہ کتاب میلہ قابل تقلید کاوش ہے۔ یہ بھی کتاب بینی کے لیے ایک بہت ہی زبردست کاوش ہے یہ کتاب میلے صرف تین بڑے شہروں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد تک محدود ہیں اِن شہروں میں کتاب میلوں کا انعقاد ضرور ہونا چاہے اِس سے یقیناً کتابوں کے مطالعہ میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم جیسے سفید پوش قلم کاروں کی ر وزی روٹی بھی انہی کتابوں کی فروخت کے ساتھ وابستہ ہے میں خود جانتا ہوں کہ کتاب لکھنا اور پھر اُس کو شائع کرانا اور پھر سب سے مشکل مرحلہ اُس کو فروخت کرنا کتنا بڑا کام ہوتا ہے ۔ چونکہ ہر دور کی حکومت کی غلط اور نا قص پالیسوں کی وجہ سے ہمارے ملک کے ادیب اور صحافی ہمیشہ مالی طور پر مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ حکومت صرف اپنے خوشامدیوں اور چند نورتنوں کو نوازتی ہے اور یوں ادیبوں کے نام پر فنڈز اور وظیفہ انہی خوشامدیوں کے حصے میں آتا ہے اِسی لیے کتاب میلہ کا انعقادبہت ہی ضروری ہے کیا ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا یہ حق نہیں کہ وہاں کی انتظامیہ اپنے طور پر ہر سال اِن دو پسماندہ اضلاع میں کتاب میلہ کاانعقاد کرائے ڈیرہ غازی خان علم ادب کے حوالے سے انتہائی زرخیز خطہ ہے۔ اسی سر زمین سے علامہ طالوت جیسی نا بغہ روزگار شخصیات بھی تعلق رکھتی تھیں کہ جنہوں نے حضرت علامہ اقبال اور شیخ العرب و عجم حضرت حسین مدنی ؒ کے درمیان کسی نظریاتی نقطہ پر اختلاف ہونے پر صلح کرائی تھی۔ محسن نقوی، کیف انصاری اور شفقت کاظمی جو حسرت موہانی سے شاعری میں اصلاح لیا کرتے تھے وہ بھی ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح پروفیسر شریف اشرف جیسے فارسی ادب کے اُستاد بھی ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کے اہل علم اساتذہ میں پروفیسر عبداللہ خان ، پروفیسر محسن حیات اثر جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 کے اساتذہ میں سے عبدالرشید فریدی ، عطا محمد خان قیصرانی ، مسلم صاحب، کریم نواز خان جسکانی ، عبدالحفیظ خان ، عبدالستار صدیقی صاحب جیسے محنتی لوگ شامل ہیں اور راجن پور ، کوٹ مٹھن سے حضرت خواجہ غلام فرید جیسے اہل علم کا نام ہی سب پر بھاری ہے ۔ یہاں کا علمی معیار لاہورکی درس گاہوںکا مقابلہ کرتاتھا۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمود خان کھوسہ اسی گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 کے پڑھے ہوئے طالب علم تھے جبکہ معروف ادیب ممتاز مفتی بھی کچھ عرصہ تک اِسی درس گاہ میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں ۔ یہاں کے لوگ آج بھی کتاب بینی کے شوقین ہیں ڈیرہ غازی خان کے سٹی پارک میں 1948ئ میں بنائی گئی۔ پبلک لائبریری آج بھی اہل علم کی رہنمائی کر رہی ہے کہ جس میں ایک لاکھ کے قریب مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہیں یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت سال میں کم از کم ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خان اور راجنپور جیسے پسماندہ اضلاع میں کتاب میلہ کا انعقاد کرائے تا کہ ہماری نوجوان نسل میںبھی کتاب سے دوبارہ محبت کا رشتہ استوار ہو سکے۔ َ اپیل کرتا ہوں کہ وہ کراچی ، لاہور ،اسلام آباد کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی کتاب میلہ کا انعقاد کرائے تا کہ ہم جیسے طالب علموں کی رہنمائی ہو سکے اور ہماری نوجوانوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو سکے ۔