Read Urdu Columns Online

Lahore Ka Kitab Mela Sab Acha Nehi Tha

لاہور کتاب میلہ: سب اچھا نہیں تھا

پانچ روز تک جاری رہنے والا لاہور انٹرنیشنل کتاب میلہ ختم ہو گیا ۔دفتری مصروفیات زیادہ تھیں اس لئے دو دن شام کو جا سکا۔سرمد خان نے بتا دیا تھا کہ دبئی میں مصروفیات کی وجہ سے انہیں لاہور آنے میں تاخیر ہو گی۔ دبئی میں دو دن پہلے وہ انگلینڈ سے پہنچے۔ سات گھنٹے کراچی کے لٹریری فیسٹول میں رکے اور پھر لاہور۔ ایئر پورٹ سے سیدھا میری طرف آ گئے۔ ایکسپو میرے گھر سے 5منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ سرمد کی معیت میں کتاب میلوں میں شرکت کئی نوع کے مشاہدات کا باعث بنی ہے۔ وہ جہاں سے گزرتے ہیں پبلشر انہیں آواز دے کر روک لیتے ہیں‘ انہیں اپنا کارڈ دیتے ہیں۔ چائے کی پیشکش کرتے ہیں۔ کچھ کے کاروباری رویے بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں‘ رکھ رکھائو میں کاروباری پن کچھ زیادہ ہی جھلکنے لگتا ہے‘ خیر سرمد کو اس سے فرق نہیں پڑتا‘ انہوں نے اپنے من میں جو ترازو گاڑ رکھا ہے وہ ان کے حساب سے لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کاروباری رویوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کسی کی خود غرضی اگر دھوکے دہی کی حد تک نہ پہنچے تو وہ شائد اسے بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ سرمد کی شخصیت کا روشن پہلو ہے۔ موسم اچھا تھا۔ ہال میں اس بار سٹینڈ کشادہ تھے۔ ہفتے کی شام کی بات کر رہا ہوں جب میری دفتر سے چھٹی تھی۔ میں نے چونکہ فیس بک پر اپنے آنے کی اطلاع پوسٹ کر رکھی تھی اس لئے کچھ دوست پہلے سے منتظر تھے۔ جہلم بک کارنر کے سٹال پر گگن اور امر شاہد موجود تھے۔ ڈیون ناول کے ترجمہ کار شوکت نیازی‘ ناول نگار و محقق اسامہ صدیق اور سلمیٰ اعوان تشریف فرما تھیں۔ سرمد کو یہاں کی مصروفیات کے حوالے کر کے میں کتابیں دیکھنے نکل پڑا۔ مجھے اب اردو میں چھپنے والی کتابیں ایک جیسی لگنے لگی ہیں۔ کلاسک کے نام پر ساٹھ ستر سال پہلے کے مخصوص لوگوں کے ناول یا خود نوشت۔ ایسی پرانی کتابیں جن کی رائلٹی کا کوئی دعویدار نہیں‘ مختلف پبلشر یہ کتابیں شائع کر رہے ہیں، کم معیار کے ترجمے۔ ڈھیروں ڈھیر مذہبی اور صوفیانہ موضوعات والی کتابیں جن کے اندر تکبر،کسی کو بڑا ثابت کرنے اور سماج کوتقسیم کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک بار کسی جگہ کتابوں سے حوالے دے کر بات ہو رہی تھی۔ ایک شخص نے میری سوچ کو نئی راہ دکھا دی۔ اس نے ایک بڑے سکالر کی کتاب پر کہا کہ ’’یہ کتاب الہامی تو نہیں‘ ہمارے جیسے انسان نے لکھی ہے‘ آخر اس کی سوچ کو مکمل کیسے مان لیا جائے۔‘‘اب میرے ساتھ ہو یہ رہا ہے کہ پسند کی کتابیں مشکل سے ملتی ہیں۔ ڈھیروں ڈھیر میں سے کوئی ایک متوجہ کرتی ہے۔ ضروری نہیں باقی لوگ میرے جیسے ہوں‘ انہیں جو پسند ہے وہ پڑھیں۔ لکھنے والے کی طرح پڑھنے والا بھی ارتقائی سفر پر گامزن رہتا ہے۔ بس کسی مقام پر ڈیرے ڈال کر بیٹھ رہنا ٹھیک نہیں۔ لاہور کتاب میلے نے شہر کی ثقافتی و علمی زندگی کو بحال کرنے میں مدد دی ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اس کے لوگ ہیں جنہیں پچھلے پچاس پچپن برسوں میں ان کی میراث سے محروم کرنے کی بھرپور کوششیں ہوئی ہیں۔ ان کی زبان‘ ان کے تہواروں‘ ان کی تاریخ اور ان کی علمی کاوشوں کو دبایا گیا ہے۔ سانجھ پبلی کیشنز کے امجد سلیم منہاس کے سٹال پر پہنچا تو انہوں نے پنجابی کے قدیم الفاظ کی تاریخ اور تاحال ان کے استعمال پر کتاب لکھنے کی فرمائش کی۔ ایسی فرمائش برادرم طاہر علی بندیشہ بھی کر چکے ہیں۔ روزی روٹی کے روز مرہ مسائل ایسے ہیں کہ سیاست جان ہی نہیں چھوڑتی۔ مجھے لاہور اور پنجاب کی اس تاریخ سے دلچسپی ہے جو کسی سرکاری دستاویز پر مبنی ہے‘ لوک کہانیوں کی شکل میں ہے‘ مذہب و نسل سے بالا مقامی افراد کے کارناموں سے متعلق ہے‘ یہاں کے پھول پودوں اور درختوں کا احاطہ کرتی ہو‘ یہاں کے جانوروں سے واقفیت دلاتی ہو۔ یہاں کی رسموں اور قبیلوں کے متعلق جان کاری دیتی ہو۔ میں نے جب کتاب میلے میں ان موضوعات پر مواد نہ ہونے کا بتایا تو برادرم عامر خاکوانی مجھے نیشنل بک فائونڈیشن کے سٹال پر لے گئے۔ وہاں باغبانی سے متعلق ایک کتاب موجود تھی۔ دو تین سادہ سی‘ ابتدائی معلومات والی ماحولیاتی موضوعات پر مشتمل کتابیں ملیں لیکن یہ مرے کام کی نہیں تھیں۔ دل مجھے کھینچ کر آکسفرڈ کے سٹال پر لے جاتا۔ کراچی میں بھی میں زیادہ وقت آکسفرڈ کے سٹال پر منڈلاتا رہا تھا۔ یہاں بس مسئلہ قیمت کا ہے۔ ہمارے حکام کو اگر معلوم ہو جائے کہ لوگ کسی خاص سرگرمی میں دلچسپی لے رہے ہیں تو وہ حوصلہ افزائی کی بجائے اسے فوری طور پر کمائی کا ذریعہ بنانے کا سوچ لیتے ہیں‘ صبر نہیں کرتے کہ یہ پودا تناور درخت بن جائے تو پھر اس کا پھل کھایا جائے۔کتاب میلہ ابھی بہت چھوٹا پودا ہے،اسے ٹیکسوں ، بھاری فیس اور مالیاتی بوجھ تلے دبانا کتابی ثقافت کو معاشی شعبہ بننے سے روک سکتا ہے۔ یہی کچھ لاہور و کراچی کتاب میلے میں سٹال کی فیس بڑھا کر کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بار مجلس ترقی ادب‘ اردو سائنس بورڈ اور ایسے دوسرے سرکاری اداروں کی نمائندگی نظر نہ آئی۔ ان اداروں نے سست روی سے کام کیا لیکن یہ سچ ہے کہ یہاں جو علمی کام ہوا ہے وہ نجی پبلشر نہیں کر سکے۔ کتاب میلہ کی انتظامیہ اور حکومت کو سرکاری علمی اداروں کو میلوں میں لانا چاہیے،ان کی شرکت کا خرچ معاف کیا جا سکتا ہے۔ سرمد خان حسب سابق کئی کاٹن بھر کر کتابیں دبئی لے گئے ہیں۔ اب یہ کتابیں یو اے ای میں اردو پڑھنے والوں کے لئے دستیاب ہوں گی۔ وہ ’’اردو بکس ورلڈ‘‘ کو ایک بڑے ادارے کی شکل دے رہے ہیں‘ جہاں کاروباری رویے کی بجائے علمی ذوق کے ساتھ کتاب دوستوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کتاب میلہ میں مجھے مسلم ایلڈرز کونسل اور پریس فار پیس پبلی کیشنز کے سٹال پر جا کر ان کے منفرد کام کو جاننے کا موقع ملا ۔مسلم ایلڈرز کونسل شیخ الجامعہ الازہر کی سرپرستی میں عالمی بھائی چارے کے لئے کام کر رہی ہے۔اسی طرح پریس فار پیس پبلی کیشنز ان نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو کتاب شائع کرنے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ یو ایم ٹی کے سٹال پر احمد کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔احمد بہت باشعور نوجوان ہے۔مجھے لگتا ہے وہ اس شعبے میں کچھ کمال ضرور لائے گا۔ایک گزارش یہ کہ کتاب میلے میں زراعت ،ٹیکنالوجی ،لائیو سٹاک ، ہارٹی کلچر،تاریخ اور پاکستان کے سماجی مسائل کے متعلق اچھی کتابیں کتاب میلوں میں لائی جائیں۔شاعری ، ناول اور افسانے ضرور پڑھیں لیکن نان فکشن کا گلہ نہ گھونٹا جائے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *