Read Urdu Columns Online

Maryam Nawaz Ki Maqtool Dhi Rani Iqra

مریم نواز کی مقتول دھی رانی اقرا

اخبار اٹھا کر دیکھیں، ٹیلی وژن کی اسکرینیں روشن کریں یا سوشل میڈیا کا رخ کریں ہر طرف یہی ملے گا کہ وزیر اعظم نے یہ کہہ دیا، عمران خان نے خط لکھ دیا اورمولانا فضل الرحمٰن نے الیکشن مانگ لئے ۔ ساری خبریں اقتدار کی بساط پر چالوں اور مہروں کی شہ مات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان بڑی خبروں میں ”رعایا” سے جڑی خبروں پر کون توجہ دیتا ہے اور اقراء تو بیچاری پھر ایک غریب دیہاڑی دار محنت کش کی دھی رانی تھی جسے محض آٹھ ہزار روپے یعنی 266 روپے یومیہ پر راولپنڈی کے ایک ظالم خاندان کے گھر باندی بنا کرچھوڑا گیا تھا ۔وہ 24 گھنٹوں کی ملازمہ تھی۔ گڑیا سے کھیلنے کی عمر کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں وہ گھر کا پونچھا لگاتی، غلیظ بیت الخلاء کو تیزاب سے دھوتی، دس افراد کے کنبے کی خدمت کرتی،گھر کا مالک کوئی سیٹھ سوٹھ نہیں تھا ایک لوئر مڈل کلاس کا فرد اورآٹھ بچوں کا باپ تھا، شہر کی گھریلو ملازماؤں کی تنخواہیں اس کی جیب پر بھاری تھیں تو اس نے کسی توسط سے پھالیہ سے غریب مزدور ثناء اللہ کو پھانسااور بائیس ماہ قبل دس سالہ اقراء کو 24 گھنٹوں کی ملازمت پر لے لیا۔ شہروں میں غلامی کی یہ شکل عام ہے۔ دور دیہات سے غربت کی دلدل میں دھنسے خاندان کی بچیوں کو معمولی اجرت پر ملازم رکھ لیا جاتا ہیٍ اور ان کے ساتھ جو جو ہوتا ہے وہ چار دیواری سے کم ہی باہر آتا ہے۔جب کوئی اکا دکا کیس کسی طرح پولیس میں رپورٹ ہوتا ہے تو ایک دودن کے لئے خبریں بن جاتی ہیں،اقراء کی خبر بھی تب باہر آئی جب وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال میں آخری سانسیں لے رہی تھی، ڈاکٹروں نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن مہربان موت اس کی مدد کو آئی اور اسے لے کر رب کی جنتوں کی طرف چلی گئی، اقراء زندہ رہتی تو پھر کسی ظالم کا گھر اس کا ٹھکانہ ہوتا۔ اقراء کون تھی کہاں سے آئی تھی اور اس کے ساتھ کیا ہوا،اس کی موت سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن مرنے کے بعد جب میڈیا نے اقراء کا معاملہ اٹھایا تو حکام وقت سے کوئی اٹھ کر ہولی فیملی اسپتال گیا نہ اپوزیشن سے کسی کو توفیق ہوئی، کسی نے بھی راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال کے مردہ خانے میں اقراء کی سرد پیشانی پر ہاتھ نہ رکھا۔ بچی کے والد کا کہنا ہے کہ وہ تین ماہ قبل بیٹی سے مل کر گیا تھا اور یہ مل کر جانا کیا ہوتا ہے اس کی بھی وضاحت ہو ہی جائے۔ یہ ملاقات تین تین ماہ کی ایڈوانس تنخواہیں وصول کرنے کے لئے ہوتی ہے، ماں باپ آتے ہیں اور بچوں کی آنکھوں سے چھلکتے کرب سے نظریں چرا کر، سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ثناء اللہ بھی کرتا تھا، تین ماہ پہلے بھی اس نے ایسا ہی کیا، بچی کی مشقت کا ایڈوانس لیا اور واپس پھالیہ لوٹ گیا۔ اس کے مطابق 10 دن قبل اس کی بیٹی نے جانے کہاں سے اور کیسے فون کر کے بتایا کہ گھر کا مالک اور اس کی اہلیہ اسے بہت مارتے ہیں۔ اقراء نے روتے ہوئے دہائی دی کہ یہ مجھے مار ڈالیں گے مجھے یہاں سے لے جائیں۔ ثناء اللہ کے مطابق اس کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے ، کچھ دن پہلے پتہ چلا کہ اسکی بیٹی ہسپتال میں ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی بیٹی نے اپنی ماں سے شکایت لگائی تھی کہ اقراء نے چاکلیٹ چوری کر کے کھائی ہیں۔ بس یہ سننا تھا کہ گھر کی مالکن جلاد بن گئی۔ اسے روٹی بیلنے والے بیلن سے مارا اور مار مار کر ہڈیاں توڑ دیں، لمحہ بھر کو سوچئے کہ اقراء کیسے چیخی ہوگی،ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاںمانگی ہوں گی، پاؤں پڑی ہوگی۔۔۔ لیکن اس کی نہ سنی گئی، ایک بچی کے سامنے بچے اسے چاکلیٹس دکھا دکھا کر کھا رہے ہوں تو اس کا جی نہیں للچائے گا؟ اگر اس نے یہ جرم کر بھی لیا تھا تو اسکی تنخواہ سے رقم کاٹ لی جاتی ۔کیا چاکلیٹ کی قیمت اسکی زندگی ہو سکتی تھی؟یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ماں جس کے اپنے 8 بچے ہوں وہ کسی اور کی بیٹی کے لئے اتنی سفاک کیسے ہوسکتی ہے؟ اوریہ ایک اکیلی اقراء کی کہانی تو نہیں ہے ہمارے آس پاس ہر چوتھے پانچویں گھر میں کوئی نہ کوئی اقراء موجود ہے، میں اور آپ اپنی آنکھوں سے ان اقراؤں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔گذشتہ برس سرگردھا میں 12 برس کی عائشہ اپنے مالکوں کے تشدد سے جاں بحق ہوگئی تھی، عائشہ کے جسم پر 19 زخموں کے نشان تھے اور اس پر اتنا تشدد ہوا کہ اسکے گردے تک خراب ہوگئے،2023 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جج کے گھر میں 14 سالہ گھریلو ملازمہ کے بری طرح زخمی ہونے کی خبریں کئی دنوں تک میڈیا پر چھائی رہی تھیں اور گذشتہ ہی برس ہی رانی پور سندھ میں کمسن فاطمہ کے ریپ اور قتل نے تو سب کو لرزہ دیا تھالیکن نتیجہ کیا نکلا؟ حسبِ توقع فریقین میں صلح ہوگی، ایک غریب محنت کش ،ہاری، کمی کمین ،کس طرح علاقے کے بااثر مائی باپ وڈیرے، جاگیردار کے سامنے عدالت میں کھڑا ہوسکتا ہے؟صلح تو ہونا تھی سو ہوگئی۔ افسوس کہ ان اقراؤں، فاطماؤں، عائشاؤں کا ڈیٹا بھی کسی کے پاس نہیں، اندازے ہی اندازے ہیں۔انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کی 2022 کی رپورٹ میرے سامنے ہے جس کے مطابق پاکستان میں گھریلو ملازم بچوں کی تعداد 26 لاکھ 4 ہزار ہے، اسے مہذب دنیا میں جدید دور کی غلامی بھی کہا جاتا ہے، بین الاقوامی ادارے پی آر آئی ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غلامی کی اس شکل نے 32 لاکھ انسانوں کو جکڑ رکھا ہے اور یہ سب دن کی روشنی میں ہو رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے سب اندھے اور سنتے ہوئے بہرے ہیںاور کب تک اندھے گونگے بہرے بنے بے حسی کے اس پستی میں پڑے رہیں گے، اس کا جواب شائد کسی کے پاس نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *