میرا گاؤں سندھار، وزیر اعلیٰ کی توجہ کا منتظر
گزشتہ ہفتے مجھے اپنے آبائی گاؤں سندھار کلاں موضع قلعہ دارگجرات ایک عزیز کے انتقال پرتعزیت کے سلسلے میں جانے کا موقع ملا۔جب سے لاہور میں آباد ہوا ہوں،45 سال بعد اپنے گاؤں میری یہ پہلی آمد تھی۔گاؤں میں داخل ہوتے ہی مجھے بچپن کی معصومانہ شرارتیں، کھیلیں اورلنگوٹیے دوست فلم کی طرح میرے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ہم اپنے بچپن میں گلی ڈنڈا، کھدو اور کوکلا چھپاکی کھیلا کرتے تھے۔درختوں پر چڑھنا،آم مالٹے بیر اور امرود توڑکر کھانا، بچپن کی شرارتوں کا معمول ہوتا تھا۔ ہاڑاور جیٹھ کی سخت گرمی میں گاؤں کی بزرگ خواتین اپنے چرخے اٹھا کر کیکر کی چھاؤں میں بیٹھ کراپنا کام کرتیں۔ دریائے چناب کے کنارے سے کچھ فاصلے پرہونے کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے ساتھ تین سیلابی نالیاں بھی بہتی تھیں۔جب دریا کا پیٹ بھر جاتا تو فالتو پانی آجاتا کیونکہ معمولی سیلاب بھی ہمارے کچے گھر وں کو گرانے کے لئے کافی ہوتا تھا۔اسی گاؤں میں متعدد بار سیلاب بھی دیکھنے میں آیا۔ معمولات میں خلل ضرور پڑتا مگر نقل مکانی نہیں ہوتی تھی۔اب گاؤں اونچا اور پکا ہو چکا ہے اور کچے گھرخوبصورت کوٹھیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کچی گلیاں پکی ہو چکی ہیں۔ہمارے دورمیں بجلی تھی اور نہ ہی سیورج سسٹم کا کوئی تصور تھااور نہ ہی ضرورت۔ سرسوں کے تیل کے دیے جلاکر رات کو روشنی کرتے تھے۔البتہ کچھ کھاتے پیتے گھرانوں میں لال ٹین ہوتی تھی، ان میں ہم بھی شامل تھے۔ گاؤں کے ارد گرد فصلیں اور باغات تھے۔ لوگوں کا زیادہ تر روزگار جانوروں کو پال کر بیچنا اور فصلوں سے کمائی ہوتا تھا۔کریانے کی دکانوں کا اتنا رواج نہیں تھا، روز مرہ کی اشیاء کے لئے زیادہ انحصار اپنے گھرکی چیزوں پر ہی ہوتا تھا۔ہم چھ بھائی اور ایک بہن یہیں پیدا ہوئے۔والد محترم سید شریف حسین گیلانی مرحوم باغبانی اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔
یہ وہ بھلا دور تھا کہ جب شیعہ سنی وہابی دیوبندی کی تفریق اتنی گہری نہیں ہوتی تھی، لوگ صر ف مسلمان ہوتے تھے۔ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلائی نہیں جاتی تھی۔باہمی اختلاف احترام کے ساتھ ہوتا، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کیا جاتا تھا۔ سب باسیوں کی مسجد ایک ہی ہوتی تھی۔ سادہ لوگ تھے، پختہ یقین رکھتے تھے کہ عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ کی کرنی ہے تو اختلاف کس بات کا۔ہمارے گاؤں کی جامع مسجد، لاہور کی بادشاہی مسجد کی ہو بہوفوٹو کاپی ہے او ر آج بھی موجود مگر خستہ حالت میں۔ مسجد کے خطیب مولوی محمد عالم مرحوم علاقے کی بزرگ اورمعزز شخصیت تھے۔ ان دنوں میں جب عام طور پر لوگ نام اللہ دتہ،لبھا، اللہ وسایا،علم دین، چراغ دین، محمد بوٹا رکھا کرتے تھے، مولوی صاحب نے ہم بھائیوں کے نام بشیر حسین، نذیر حسین،منیر حسین،شبیر حسین، اظہر حسین، اکمل حسین رکھے۔ میرے والد محترم شریف حسین گیلانی نے اپنے بچپن میں ان سے قرآن مجید پڑھا،جبکہ ہم نے قرآن مجید اپنے والدمحترم شریف حسین سے سیکھا۔ اسی گاؤں میں ہم 12 ربیع الاول وفات کا جلوس بھی نکالا کرتے تھے، درود و سلام کی محفلیں منعقدہوتی تھیں۔ عید میلاؐد النبی ابھی تک اتنی متعارف نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں جلوس نکلنا شروع ہوئے۔
میرا گاؤں سندھارکلاں مغلیہ دور حکومت کے ایک قلعہ دار کے نام سے منسوب قلعہ دار مغلاں کے نام سے مشہور قصبہ سے ایک فرلانگ پر واقع ہے۔ہندو پنڈتوں کا علاقہ ہونے کے باوجودجامع مسجد قلعہ دار کی تعمیر اور نقش و نگاری مغلیہ حکومت کے دور میں ہوئی۔ا ب یہ مسجد خستہ ہوچکی ہے، میری حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ مغلیہ دور کی یادگار اس جامع مسجد کو آثار قدیمہ میں شامل کر کے اس کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
قلعہ دار مغلاں ایک بڑا قصبہ ہے۔ اس کے ارد گرد چند چھوٹے دیہات بھی آباد ہیں جن میں سندھار خورد، سندھار کلاں اور گامے دا کوٹ قریب ہیں،جبکہ قریب ہی ایک بڑی آبادی شادی وال کے نام سے قائم ہے۔اس علاقے کی بدقسمتی یہ رہی کہ آنے والی ہر حکومت نے اسے نظر اندا ز کیا، علاقے کی ترقی کے لیے کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ماسوائے چودھری پرویز الٰہی جن کے حلقہ انتخاب میں یہ علاقہ شامل ہے۔ انہوں نے اس علاقے کی ترقی کے لیے جی ٹی روڈ سے شادی وال اور قلعہ دار مغلاں سے سندھار خورد اور سندھار کلاں کو جانے والی سڑک کی تعمیر و ترقی پر کام کیا، بجلی گیس اور گلیوں کو پختہ کرنے کا کام بھی کیا گیا لیکن حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے کچھ کام ادھورے رہ گئے ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی میدان میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لائی گئی ماسوا ئے ضلع گجرات میں زمیندارہ کالج جس میں طلبا ؤ طالبات کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ان دیہاتوں کے نوجوان تعلیم کے حصول کے لئے دور سے سفر کر کے گجرات شہر میں جاتے ہیں۔ اگر حکومت شادی وال اور قلعہ دار مغلاں کے ارد گرد گاؤں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتی ہے تو شادی وال اور قلعہ دار مغلاں کے گاؤں کے مرکز میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کروا دے تاکہ جن بچیوں کو تعلیم کے لیے گجرات شہر تک کا سفر کرنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے،ان کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں۔
اپنے گاؤں جاتے ہوئے میرا سفر لاہور سے گجرات تک جی ٹی روڈ کے راستے رہا۔جو انتہائی تکلیف دہ تھا، شکستہ سڑک حکومت پنجاب کی توجہ کی متقاضی ہے۔جی ٹی روڈ کی تعمیر نو اور کشادگی وقت کی ضرورت ہے۔میں تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں حکومت پنجاب بڑے شہروں خصوصا ًلاہور میں جو کام کر رہی ہے، وہ قابل ستائش اور دوسروں صوبوں کے لیے قابل تقلید بھی ہے۔سابقہ ادوار میں میاں نواز شریف نے لاہور سے اسلام آباد اور پشاور تک موٹروے کی ابتدا کی،تو سیاسی مخالفین نے ان پر تنقید بھی کی۔اب موٹر وے پرسفر کرنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت کو دعائیں دیتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ پاکستان میں موٹرویز کا جال بچھایا گیا جو اب تک جاری ہے۔ یہ قابل تعریف اور قابل تقلید عمل ہے۔ اسے بحیثیت قومی سرمایہ کے لینا چاہیے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ، سیاست ضرور کریں۔میں محترمہ مریم نواز صاحبہ سے جی ٹی روڈ کی ازسر نو تعمیر اور وسعت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم،دھی رانی پروگرام سے غریب بچیوں کی شادی،لیپ ٹاپ کی تقسیم،کسان کارڈ،گھروں کی تعمیر،اقلیتوں کی دیکھ بھال اور معذوروں کی سہولیات کے لیے جو کام شروع کر رکھے ہیں،ان کے دور رس اثرات سے عوام مستفید ہوں گے۔لیکن انہیں پسماندہ علاقے خاص طور پر شادی وال اور ارد گرد کے علاقوں کے لیے کالج تعمیر کرنا چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی محکمہ تعلیم اورجی ٹی روڈ کی ڈیویلپمنٹ کے ذمہ دار اداروں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں۔ جی ٹی روڈ کے ارد گرد کے شہر اور قصبے اور دیہاتوں کو بھی اچھی سڑکوں کی سہولیات سے فیضیاب کرنا چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے لیکن ملکی فلاح و بہبود اور چھوٹے طبقے کو آسائشیں دینے کے لیے اقدامات ضروری ہیں جو ہمیشہ کے لیے ان کے منہ سے نکلے تعریفی کلمات اور دعائیں حکمرانوں کے لیے سرمایہ ہوں گے۔