میرا لاہور کا پروفیشنل دور!(حصہ اول)
میرا لاہور کا پروفیشنل دور! ان عشروں پر محیط زمانے کی کئی کہانیاں میں نے ٹکڑوں میں بیان کی ہوں گی، لیکن ابھی خیال آیا کہ اس داستان کو ایک ترتیب کے ساتھ آپ کو سناؤں۔ کالم میں تو اس روداد کا خلاصہ ہی لکھا جا سکتا ہے۔ کوئی لکھی ہوئی یادداشت اس وقت میرے سامنے نہیں ہے اس لئے اپنے حافظے پر انحصار کرتے ہوئے ماضی کی دشت نوردی کرنے جا رہا ہوں۔ کوئی غلطی ہو گئی تو بعد میں درست کر دوں گا۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور نیو کیمپس کی تب شیخ زید ہسپتال کے سامنے جو پہلی اکیڈمک بلڈنگ تھی وہ تمام تر آئی ای آر ڈیپارٹمنٹ تھا سوائے ٹاپ منزل کے جہاں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ واقع تھا۔ یہاں میں ایم اے جرنلزم میں داخل ہوا اور انگلش جرنلزم کا انتخاب کیا اور نہر کے دوسری طرف ہوسٹل نمبر تین میں رہائش مل گئی۔ ہمارے ساتھ اردو جرنلزم کے ایک بہت تیزطرار سٹوڈنٹ رانا خورشید (سابق ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ایل ڈی اے) پڑھتے تھے جو طالب علمی کے دور میں ہی اس وقت کے معروف اخبار ”کوہستان“ کے ایک سٹوڈنٹ صفحے کے انچارج بن گئے تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ترغیب پر میں نے اس میں ایک ہفتہ وار ”یونیورسٹی کالم“ لکھنا شروع کر دیا۔ اس طرح میں انگلش جرنلزم کا سٹوڈنٹ ہونے کے باوجود اردو کا پارٹ ٹائم عملی صحافی بن گیا۔
تاہم جرنلزم کا باقاعدہ آغاز ایک انگریزی رسالے ”فلم ورلڈ“ سے اس وقت ہوا جب ایم اے کا نتیجہ ابھی آیا نہیں تھا۔ میں اپنے کلاس فیلو اور گہرے دوست جاوید اقبال پراچہ مرحوم (سابق نیوز ایڈیٹر پاکستان ٹیلی ویژن لاہور) کے ہمراہ کیمپس نہر کے کنارے اور مال روڈ پر پیدل آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔ ایک روز مال روڈ کے ریگل چوک میں ہم نے ”فلم ورلڈ“ نامی ایک رسالے کا سائن بورڈ پڑھا اور سیڑھیاں چڑھ کر اس دفترجا پہنچے۔سامنے رسالے کے ایڈیٹر پروفیسر احمدسعید بیٹھے تھے (جو دیال سنگھ کالج میں ہسٹری پڑھاتے تھے)۔ پراچہ تو خاموشی سے میرا ساتھ دے رہا لیکن میں نے پوچھا کہ مجھے اس رسالے میں کوئی جاب مل سکتی ہے۔
پروفیسر صاحب نے میری دلچسپی دیکھ کر دراز میں سے سعادت حسن منٹو کی بمبئی فلم انڈسٹری میں اپنے زمانے کی افسانوی انداز میں لکھی ہوئی کتاب نکالی اور اس کے ابتدائیہ (جو پوری کہانی کا خلاصہ تھا) میرے سامنے نکال کر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ اس کا بامحاورہ انگریزی ترجمہ کرکے دکھاؤ۔ اگر مجھے پسند آیا تو جاب مل جائے گی۔ میں نے کتاب لی۔ سارے کاغذ اور بہت سے قلم لئے اور نیچے اتر آیا۔ الفلاح بلڈنگ کے پاس تہ خانے میں ایک ریسٹورنٹ تھا۔ پراچہ چلا گیا اور میں نے نیچے اتر کر ترجمہ شروع کر دیا۔ دو اڑھائی گھنٹے لگا کر مکمل کیا اور نظرثانی بھی نہیں کی کہ پروفیسر صاحب چلے نہ جائیں۔ میں نے مسودہ ان کے سامنے رکھا۔ وہ بغیر کچھ بولے پڑھنے لگ گئے اور پھر ایک دم اچھلے اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ رسالے کے چیف ایڈیٹر اور مالک جاوید اقبال بٹ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ترجمہ تو بالکل نہیں بلکہ ایک اوریجنل تحریر ہے۔ اتنی خوبصورت انگریزی اور اتنی روانی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔
ڈیپارٹمنٹ میں انگریزی ایڈیٹنگ کرنے اور نیوز فیچر لکھنے کا تو بہت موقع ملا لیکن اتنی تعریف سن کر یقین نہیں آیا کہ یہ میرا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ انہیں ایک سپیشل کارسپانڈنٹ کی ضرورت تھی لیکن میں آپ کی تحریر سے متاثر ہو کر آپ کو اسسٹنٹ ایڈیٹر کی جاب دے رہا ہوں۔ اس طرح ایم اے کی ڈگری ملنے سے پہلے ہی میں باقاعدہ انگلش جرنلسٹ بن گیا۔ میرا کام اس ماہوار رسالے کے لئے وقت طے کرکے فلم، ٹی وی ریڈیو سمیت دیگر کلچرل شعبوں کے نامور افراد کے انٹرویو کرنا تھا جس سے انگریزی تحریر میں میرے تجربے میں بہت اضافہ ہوا، لیکن میں مین سٹریم اخباری صحافت سے ابھی تک باہر تھا۔ ایم اے کا نتیجہ آ گیا تو اسی روزنامہ ”کوہستان“ میں جہاں میں پڑھائی کے دوران کالم لکھتا رہا اس کے نیوز روم میں باقاعدہ صحافت کا آغاز کر دیا۔
یہ ”آغاز“ والا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ اب جماعت اسلامی سے متعلق ایک ادارے ”اتحاد پبلیکیشنز“ نے ”کوہستان“ کی ملکیت حاصل کرلی تھی۔مجھے ساڑھے تین سو ماہوار پر ”اپرنٹس سب ایڈیٹر“ کے طور پر اپوائنٹ منٹ لیٹر مل گیا۔ مطلب یہ کہ تین ماہ کی پروبیشن جس کے بعد جاب مستقل ہونا تھا، لیکن انتظامیہ نے قانونی تقاضاپورا کرتے ہوئے تین ماہ سے قبل ہی میری طرح بھرتی ہونے والے بہت سے اخباری سٹاف کو فارغ کر دیا، لیکن ساتھ میں اخبار کے سینئر صحافی بھی لپیٹ میں آ گئے۔ اس وقت کے معروف کالم نگار احسان بی اے نے ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد سڑک پر قائم احتجاجی کیمپ میں ”پکوڑوں کا سٹال“ لگا لیاجو بہت مشہور ہوا۔
مطلب یہ کہ مین سٹریم اردوصحافت میں داخل ہونے کے صرف اڑھائی ماہ بعد اس سے نکل بھی آئے۔ تاہم اپنا لکھنے لکھانے کا مشغلہ ماہوار انگریزی رسالے ”فلم ورلڈ“ کے ذریعے جاری رہا۔ اس رسالے کے بہت اچھے کلر فوٹوگرافر ایس اے رحمان تھے جو پی آئی اے کے آفیشل فوٹو گرافر تھے اور یہ ان کا اضافی کام تھا۔ انہیں شوق چرایا کہ اپنا رسالہ نکالا جائے۔ انہوں نے ”فلم اینڈ فیشن“ کے نام سے سمن آباد میں ایک دفتر بنا کر رسالے کا آغاز کرنے کے لئے مجھے اس کا ایڈیٹر بنانے کی آفر کی اور میں نے اس رسالے کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ ایس اے رحمان طارق عزیز کے سگے ماموں تھے لیکن عمر میں ان کے تقریباً برابر تھے۔ اس رسالے کے لئے میں نے جو انٹرویو کئے ان میں طارق عزیزکا بھی ایک یادگار تفصیلی انٹرویو شامل تھا۔ یہ رسالہ زیادہ تر نہ چل سکا اور بند ہو گیا تو میں نے کوئنز روڈ پر واقع ایک اخبار ”وفاق“ کے نیوز روم میں سب ایڈیٹر کی باقاعدہ جاب کرلی۔ اس کے ایڈیٹر اور مالک مصطفی صادق جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں بھی کچھ عرصہ شامل رہے۔ یہاں خبریں بنانے کے ساتھ ساتھ میں نے ”میری باتیں“ کے عنوان سے کالم لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ اس دوران میری اخباری صنعت کی ٹریڈ یونین سیاست میں دلچسپی شروع ہو چکی تھی۔ روزنامہ ”پاکستان“ کی مختصر ملازمت سے تو کچھ حاصل نہ ہوا لیکن وہاں سے نصراللہ غلزئی جیسا جنونی، محنتی اور باصلاحیت رپورٹر اور مخلص دوست مل گیا اور پھر بہت ساتھ نبھایا۔ غلزئی ٹریڈ یونین میں بہت سرگرم تھا اور اس سرگرمی میں اس نے مجھے بھی شامل کرلیا۔ اخباری ٹریڈ یونین میں وہ اپنے استاد اشرف طاہر کو روزنامہ ”مشرق“ میں جب بھی ملنے جاتا تو میں اس کے ساتھ ہوتا جو وہاں سینئر نیوز ایڈیٹر تھے۔
مجھے ٹریڈ یونین میں حصہ لینے کے سارے گُر آہستہ آہستہ سمجھ آ رہے تھے۔ اشرف طاہر مرحوم معروف ٹی وی ایکٹریس روبینہ اشرف کے والد تھے۔ اشرف طاہر کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے ضیاء الاسلام انصاری مرحوم سے شادی کرلی تو روبینہ اشرف بھی ضیاء صاحب کے گھر رہتی تھی۔ ضیاء صاحب میرے بہت اچھے دوست بن گئے تھے اور روبینہ بھی میری فیملی کے ارکان سے ملتی رہتی تھی۔ ضیاء اسلام انصاری جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی تھے لیکن کابینہ میں شمولیت کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ وہ سرکاری اخبارات کے ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین بن گئے اور ایک بڑے سرکاری اخبار ”مشرق“ کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے جس سے وہ عرصے سے وابستہ تھے۔(جاری ہے)
One comment
Pingback: Mera Lahore Ka Professional Daur Part 2