Read Urdu Columns Online

Meri Kahani By Atta Ul Haq Qasmi

(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارے ہاں لوگ ہاتھ دکھانے کے بہت شوقین ہیںیہاں ہاتھ دکھانا ہر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک دھوکہ دہی اور دوسرا نجومیوں کو ہاتھ دکھانا۔ پنجاب یونیورسٹی میں دوران تعلیم مجھ سے ایک سال پیچھے میرا ایک دوست جعلی دست شناس بنا ہوا تھا، مردوں سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کی بہت شوقین ہوتی ہیں، میرے اس جعلی دست شناس دوست نے اپنی یہ شہرت اللہ جانے پوری یونیورسٹی میں کیسے پھیلائی ہوئی تھی کہ وہ اس کے پاس ہاتھ دکھانے کے لئے آتیں، وہ پہلے لڑکی کا چہرہ دیکھتا، اگر وہ اس کے شایان شان نہ ہوتا تو ایک آدھ منٹ میں اس کے مستقبل کا احوال بیان کرکے کہتا ’’ماشا اللہ آپ بہت خوش قسمت ہیں پانچوں نمازیں پڑھیں، پورے روزے رکھیں اور نوافل بھی ادا کریں تو جو ایک آدھ رکاوٹ مجھے دکھائی دے رہی ہے وہ بھی آپ کی خوش قسمتی کا رستہ نہیں روک سکے گی‘‘۔ اس کے برعکس اگر کوئی خوبصورت لڑکی اپنی قسمت کا احوال جاننے کیلئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی تو کہتا یہاں روشنی کم ہےآپ کے ہاتھ کی لکیریں نہیں پڑھی جا رہیں، آپ نیچے گارڈن میں میرے ساتھ آجائیں، گارڈن میں وہ برگد کے درخت کے نیچے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اس کی قسمت کا احوال اتنے دلکش انداز میں اسے بتاتا جس میں اس کیلئے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہوتیں،وہ اس دوران اس کا ہاتھ سہلاتا رہتا اور اس کی توجیہہ یہ بیان کرتا کہ ہاتھ کی وہ لکیر صاف کرکے دیکھنا چاہتا ہوں جو اتنی نمایاں نہیں مگر وہ اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
جو بات میں آپ کو بتلانے جا رہا ہوں وہ میرے لئے تو حیران کن تھی ہی مجھے یقین ہے آپ بھی ششدر رہ جائیں گے۔ پروفیسر ایم اے ملک کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا۔ وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور دست شناسی میں ان کے مقابل اور کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے ضیاء الحق کے بارے میں جتنی پیش گوئیاں کیں اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ واقعہ کب رونما ہوگا، صرف ایک پیش گوئی ایسی تھی جو لفظ بہ لفظ پوری نہیں ہوئی وہ یہ تھی کہ بالآخر انہیں جلا وطن ہونا پڑے گا۔ جبکہ وہ جہاز کے حادثے میں مارے گئے۔ اب آمدم برسرمطلب انہوں نے میرے ہاتھ کا نقش بھی لیااور کہا میں معروف لوگوںکے حوالے سے ایک کتاب انگریزی میں لکھ رہا ہوں ، آپ کے ہاتھ کا نقش میں نے لے لیا ہے ،میرے ناقص علم میں آپ کی زندگی کے حوالے سے جو سمجھ میں آیا وہ اس کتاب میں ہوگا۔ میں نے عرض کی ملک صاحب مہربانی فرما کر کتاب کی اشاعت سے قبل ہی مجھے کچھ تو بتا دیں، بولے چلیں ایک ہفتے میں، میں آپ کو اپنی سمجھ کے مطابق جو سامنے آیا وہ بتا دوں گا اور اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے،انہوں نے اپنی دست شناسی کے علم کے مطابق میرے بارے میں جتنی پیش گوئیاں کیں وہ سب کی سب سچ نکلیں اور میں دم بخود رہنے کے علاوہ اس سوچ میں بھی پڑ گیا کہ کیا ہمارے لئے روزاول سے طے کر دیا گیا تھا اور یہ باتیں مرحلہ بہ مرحلہ ہمارے ہاتھ میں لکیروں کی صورت میں بتا بھی دی گئی تھیں۔
تمہید بہت طویل ہوگئی کہ اب آپ ملک صاحب کی پیش گوئیاں سن لیں ۔ واضح رہے میں نے انہیں اپنا یہ ہاتھ ستمبر 1986ء میں دکھایا تھا۔ پہلی پیش گوئی تھی کہ آپ کو بیرون ملک کوئی ذمہ داری سونپی جائے گی، آپ بہت انکار کریں گے، مگر بالآخر آپ راضی ہو جائیں گے۔ اور ناروے کی سفارت کے حوالے سے یہ پیش گوئی سچ نکلی۔ دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ 58 برس کی عمر میں آپ کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوگا اگر بچ گئے تو لمبی عمر پائیں گے۔ ٹھیک 58 برس کی عمر میں میرے دائیں گردے کے قریب کینسر پایا گیا، ڈاکٹروں نے وہ گردہ نکال دیا اور یوں ملک صاحب کی دونوں پیش گوئیاں حرف بہ حرف صحیح نکلیں اور وہ یوں کہ 58 برس کی عمر میں میری زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوا مگر میری جان بچ گئی اور دوسرا جملہ کہ اگر بچ گئے تو لمبی عمر پائیں گے کے مطابق آج میں 82 برس کی عمر میں ایک گردے کی کارکردگی کے نتیجے میں زندہ ہوں۔ اب میں ’’بائیں‘‘ گردے کے سہارے زندہ ہوں، شاید اسی لئے بائیں بازو کے کچھ دوست مجھےبھی لیفٹسٹ سمجھنے لگ گئے ہیں۔باقی پیش گوئیاں یہ بھی تھیں ۔1۔ نئے تعلقات اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کا دل بھی ٹوٹے گا کہ ان کی طرف آپ کی توجہ نہیں رہے گی۔\2۔آپ کا ہاتھ روپیہ جمع کرنے کا نہیں خرچ کرنے کا ہے،بعض دفعہ تو آپ مستقبل میں آنے والی رقم بھی پہلے ہی خرچ کردیتے ہیں۔ اس کی گواہی میرے سب دوست اور غیر دوست دے سکتے ہیں۔ 3۔ اولاد کے ذریعےآپ کے تشنہ خوابوں کی تکمیل بھی ہوگی، آپ کے بچے تخلیق کی طرف جائیں گے اور تیسرا بیٹا مختلف حوالوں سے آپ کا نام روشن کرے گا۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ، علی عثمان قاسمی اور عمر قاسمی کے بار ےمیں بھی یہ باتیں درست ثابت ہوئیں۔ ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ممکن ہے ایک بیٹا اور بھی پیدا ہو مگر اس دوران مجھے غیب سے آواز آتی رہی، بس کر دے بس، اور یوں میں ملک صاحب کی اس پیش گوئی کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ (باقی کل)

Check Also

Urdu Columns Today

Meri Kahani

میری کہانی (گزشتہ سے پیوستہ)گائو تکیہ کے ساتھ احسان صاحب بیٹھے ہوتے ،سامنے لوگ براجمان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *