معز زکون ہوتاہے؟ یہ ایک بہت ہی مشکل سوال ہے۔ اتنا مشکل کہ اس سوال کی گہرائی میں اترنے والا دوبارہ ابھر نہ سکے اور اس کی تلاش میںنکلنے والے اسکے لاشے کو تڑپتا ہوا پائیں ۔ اس کے باوجود ہر شخص کسی نا کسی حیثیت میں اپنے آپ کو معزز او ر اکثر کو ذلیل سمجھتا ہے اور بھول جاتاہے کہ خود اُسے ذلیل سمجھنے والوں کی تعداد اُس شمار سے کئی زیادہ ہے جو اُس کی عزت اور تکریم کے شمار میں ہیں۔ پھر بھی ہم اس سوال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ خود کو معزز اور دوسروں کو ذلیل سمجھنا ایک نہایت گھٹیا بات ہے اور یقین ہونا چاہے کہ دنیا میںہم سے زیادہ گھٹیا لوگ بھی ہروقت موجود ہوتے ہیں۔ بہر حال سوال یہ تھا کہ معزز کون ہوتاہے؟یہ جاننے کیلئے غور کرنا چاہئے کہ کیا صاحب حیثیت اور کروفر معزز ہوتاہے یا صاحب علم ودانش ؟کیا صاحب شجرہ اور نام ونسب معزز ہوتاہے یا صاحب توپ وتفنگ ؟ کیا صاحب دولت وثروت معزز ہوتاہے ،یا صاحب جاہ جلال ؟ ان سوالوں کا جواب اس قدر دُھول میں اٹاپڑا ہے کہ اسے ڈھونڈنے کیلئے بہت زیادہ صفائی اور دھلائی کی ضرورت ہے اس قدر گندے ملبے کے نیچے اس سوال کا جواب پڑا ہوا ہے۔ اسے نکال کر باہر لانا اس کے انہتائی مشکل ہونے پر دلیل ہے ۔اس سوال کے جواب کو جس عمیق گہرائی میںگرادیا گیا تھا وہاں وہ مدتوں سے کسی ڈول کے انتظار میں ابھرنے کے لئے بے تاب ہے۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں کودنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر پس وپیش کا جائیزہ لے لیں اور اُن علامات کا بغور مطالعہ کرلیں جو معزز کی پہچان کراتی ہیں۔ اس خواہش کو بیدار کرتی ہیں کہ کا ش ’’معززین‘‘ بھی اس شعور کے حامل ہوجائیں جوانھیں ان ذلتوں کو سجدہ کرنے پر مجبور کردے جواُن کے وقار کی بنیاد بن چکی ہیں۔ وہ سمجھ سکیں کہ اگر یہ ذلتیں ان کے پیروں تلے سے کھسک گئیں تو ان کی عزتیں خاک میںمل جائیں گی اور وہ بھی انہی کی طرح ہوجائیں گے جن کی طر ح نہ ہونے کے باعث وہ عزت دار کہلاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ ناپاک جسموں کو اجلے اجلے او ربے داغ کپڑوں سے ڈھاپنتے ہیں ۔ شُستتہ جملے ادا کرتے ہیں اور مہذب اداکاری کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بہکی نگاہیں، ڈولتی چال اور مغر ور چہرہ اندر کی بدبو پھیلا کر بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے ۔ آدمی ننگا ہوجاتاہے ۔ عزت دار کے لئے عریانی چھپانا ننگے کے کپڑے پہننے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ننگے کے لئے عریانی باعث ننگ نہیں جبکہ عزت دار کے لئے عریانی اس کے ننگے پن کی علامت اورجھوٹی شان کی دھجیاں اڑادے گی۔ اس لئے ہر وقت دعا کرنی چاہے کہ خدا جھوٹی شان نا چھینے کیونکہ اصلی اور حقیقی شان وشوکت کے طمطراق اور کروفر کے لئے چھن جانے والے لوازمات کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ لوگوں کے سروں پر بوجھ ہوتاہے ، کندھوں یا ذہنوں پر بوجھ ہوتاہے جبکہ ان عزت دار مسخروں کے پیٹو ں پر بوجھ ہوتا ہے۔ یہ سر جھکا کر چلنے کی بجائے ٹانگیں کھول کر چلتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہے کہ اس قماش کے معزز ین صاف ستھری، قیمتی اور خالص غذا ضرور کھاتے ہیں ۔ حقیقت میںیہی باتیں ہیں جو بے شمار انسانوںکو برابری کی بنیاد فراہم کرتی ہیں کیونکہ کسی بھی شنہشاہ معظم اور حاکم وقت کو ، کسی بھی ظل الہٰی اور ملکہ عالیہ کو کسی بھی رستم وسہراب کو کسی بھی حسینہ عالم کو کسی بھی افلاطون کو غرضکہ کسی بھی مائی کے لعل کو اس نظام سے چھٹکار ا حاصل نہیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ اسی بدبوردار انسان کو اشرفالمخلوقات کا مرتبہ دیا گیا ۔ اور یہی وہ مخلوق ہے جو مسجود ملائکہ قرار پائی ۔ پھر یہی دو پیروں پرچلنے والے وہ جاندار ہیں جو اپنے خالق کے نزدیک مکمل طور پر برابر ہیں اور ایک دوسرے پرکوئی فیضلت نہیں رکھتے بجز تقویٰ کے یعنی ان کے بنانے والوں کے نزدیک انگریزی کو اردو پر کوئی فضیلت نہیں۔ پتلون کا رتبہ دھوتی سے بلند نہیں ۔شلوار کے مقابلے میںجینززیادہ قابل احترام نہیں۔واسکٹ کے مقابلے میں ڈبل بریسیٹ کوکوئی بزرگی حاصل نہیں۔ اس کے نزدیک پاجامہ اور غرارہ برابر ہیں کیونکہ یہ دونوں اگر چھپاتے ہیں تو اس مقام کو چھپاتے ہیںجس کا چھپانا مقصود ہو او ر جس کی تشہیر سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن وہ مقام اگر بذات خود پوشیدگی پسند نہ کرے تو پاجامہ اور غرارہ ملکر بھی اسے اس جرات اور بیباکی سے نہیں روک سکتے ۔ معلوم ہواکہ معزز صرف وہی ہوتا ہے جو صاحب تقویٰ ہوتاہے ۔ ستھری بات کرتاہے اور بہترین سوچیں سوچتا ہے۔ اس کے خیالات پاکیزہ اور نیتیں معصوم ہوتی ہیں ۔ اشارے نہیں کرتا کہ دل نہ دکھیں۔ خو بصورت مشورے دیتا ہے کیونکہ حاسد نہیں ہوتا پیار کرتا ہے کیونکہ تنگ نظر نہیں ہوتا۔ مدد کرتا ہے کیونکہ بخیل نہیں ہوتا۔ اور ٹکرا جاتا ہے کیونکہ بزدل نہیں ہوتا۔ صرف خلعت فاخرہ میں ملبوس ہی معزز نہیں ہوتا ۔ او ر ناہی لمبی گاڑی کا سوار معز ز ہوتا ہے۔ صرف خوبصورت اورتروتازہ جوانی ہی معزز نہیں ہوتی او رناہی دھن دولت سے اکڑی ہوئی گردن ہی معزز ہوتی ہے۔ صرف کاروباری علم ہی معزز نہیں ہوتا اور ناہی نمائشی عبادت معزز ہوسکتی ہے۔ وہ بھلاکیونکہ معزز ہوگا جو ہواکے دوش پر اڑتا پھرے اورجن کے طفیل اپنی اڑان پر مغرور ہو انہی کو مردود سمجھے۔ وہ کیسے معزز ہوسکتا ہے جو اپنی ماں بہن ، بیوی اور بیٹی کے علاوہ ہر عورت کو طوائف سمجھے؟ وہ کیونکر معزز ہوگا جو مریض کو گاہک سمجھے اور شاگرد کو ذریعہ معاش ؟ کوئی اُسے کیسے معزز مان سکتاہے جو کھلے بندوں اپنے الفاظ چبا چبا کر کھاتا پھرے اور پھر اس پر اترائے بھی؟ وہ بھی کیسے معزز ہوسکتاہے جس نے جنت کے سارے کارنر پلاٹ اپنے نام کرالئے ہوں او ر دوسروں کو بانٹنے کے لئے دوزخ کے تندور دکھاتا پھرے؟ معزز وہ ہوتاہے جو نام ونمبود کو رکوع اور سجود سے دور رکھتا ہے۔ معزز نفرت اور محبت صرف خدا کیلئے کرتا ہے۔ اچھے کاموں کی تلقین کرتا اور برے کاموں سے روکتاہے۔ معزز کبھی فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ وہ فرشتوں کے خدشات سے آگاہ ہوتا ہے ،وہ نفرتوں کو بیج نہیں بوتا کیونکہ محبت کی قوت سے واقف ہوتاہے، معزز جوکہتا ہے وہ کرتابھی ہے اور جو نہیں کرتا وہ کبھی نہیں کہتا۔ معزز مدمقابل کو انسان کا بچہ سمجھتاہے ۔ معزز وہ ہوتاہے جو رنگ نسل زبان مٹی اور روپے پیسے کے فرق کو تعارف کا فرق سمجھتاہے ناکہ تعریف کا ۔ اس بات پریقین کا حامل شخص صرف وہی ہوسکتاہے جو زندگی کی آخری رات گذار کے و قت فجر طلوع سحرکو مخاطب کرکے پکار اٹھے ’’ اے صبح گواہ رہنا میں نے ہمیشہ تجھے طلوع ہوتے ہوئے دیکھا اور تونے کبھی مجھے سوتے ہوئے نہیں دیکھا ‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ عزت صرف اللہ کیلئے ہے۔ اس کے رسولؐ کیلئے اور مومنین کیلئے ہے۔ اور ان سب کے لئے جو اپنے اعمال کی نسبت سے ان کے قریب ہیں۔
