Read Urdu Columns Online

Mom Ke Makanoon ka Atta Shad

موم کے مکانوں کا عطاشاد

عطا شاد،ہمارے خطے کا علمی،ادبی اور شعری حوالہ جسے محبتوں کی سرزمین کا الاؤ رکھنے والاکردار دیا گیا اور جس نے اپنی زندگی شعر و ادب کی تہذیب اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینے کا شاندار کردار ادا کیا، کہتے ہیں بڑے لوگ موت کو شکست دینے کا باعث ہوتے ہیں وہ جیتے جی مثالِ یقین بن کر زندگی کو سجاتےسننوارتے اور اُس سے مکالمہ کرتے جاتے ہیں،زندگی کی قدر بڑھاتے جاتے ہیں،مگر زندگی اپنی رعنائی اورآشنائی کے بدلے میں بے وفا ٹھہرتی ہے وقت کے ساتھ مل کر ہمارے پیاروں کو راہی عدم روانہ کرتی ہے، مگربڑے لوگ اپنی ہنرمندی اپنے کمالات کے ساتھ اپنے چاہنے والوں اپنے عقیدت مندوں کے ذریعے زندہ باد ہوکر زندگی کے کشادہ بازوؤں میں براجمان ہم سےمکالمہ کرتے ہیں،ہمارےخطے کے بہت سارے مثالی ،جلالی اورجمال کی آبیاری کرنے والوں میں عطاشاد ایک دلکش منفرد اوردلدادہ فنکار،شاعراورڈرامہ نگار کی حیثیت رکھتے تھے اُن کے ذکر کے بغیر بلوچستان کی ادبی اورشعری تاریخ نامکمل ٹھہرتی ہےعطاشاد سے محبت کے دعوے کرنے والے ان دو دہائیوں میں صرف یہ سوچنے میں اپنا آپ اور اپنا وقت ضائع کرچُکے ہیں کہ عطاشاد اس کی شخصیحت اور اس کی دل کوچھُو لینے والی شاعری پرکیالکھیں،کیسے لکھیں ،عطا کی شاعری کے موضوعات،ہیئت و اسلوب اور منفرد تراکیب سے چونکادینے والے عطا کی ہنرمندی اوردسترس کو کیسے الگ اور نمایاں کریں واجہ عطاشاد کی بلوچی زبان میں جدید شاعری کے امکانات اوراثر پذیری کو تسلیم کریں اس کے تسلسل پر بات کریں،عطاکی دلداری اور میخواری نے ان کی شخصیحت اور شاعری پر کیااثرات مرتب کئےاور۔۔۔۔۔اور کیا ہم عطا کے رستے پر چل سکتے ہیں،اُس کی طرح زندگی سے مکالمہ کرسکتے ہیں اس انداز کی محبتیں اور وارفتگیاں نبھاہ سکتے ہیں جو کہتا ہےعطاسے بات کرو چاندنی سی شبنم سیخُنک نظر ہے مگردل الاؤ رکھتا ہےبہرحال یہ ایک طالب علم کی حیثیت سے چند سوالیہ باتیں ذہن میں ابھرہں تو آپ کے ساتھ دل ہی دل میں دُھرایا۔۔۔۔کل شام مری لیب میں تروتازہ،جواں پُرعزم اور ہرروز کی طرح امکانات سے لبریز ڈاکٹرشاہ محمدمری سے سوز چائے کی محفل میں علمی ادبی گفتگُو کے دوران عطابھائی کاذکر آیا میں نے شام کے اُترتے منظر پر عطاشاد کی نظم کارِمحتسب کا ورد کیا ۔یوں تو عطاسے دوستی اور تعلق کے دعوے کرنے والے بےشمار لوگوں سے ملا ہوں جو عطاشاد سے تعلق کی دلیلیں دے کر اپناقدبڑھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں اب بھی ریڈیو،ٹی وی کے پروگراموں میں ایسے ایسے دانشور بات کرتے ہیں جو عطاکی شاعری کی درست ادائیگی سے محروم ہوتے ہیں مگرواجہ مری عطاشاد سے محبت اورعقیدت رکھنے والے چند خاص لوگوں میں سے ہیں جو عطا کی شاعری کی تفہیم کے سلسلے میں اکثربیشتر گفتگو کرتے ہیں ہمیں اُکساتے ہیں ہم چند دوستوں بیرم غوری،سرورجاوید،عرفان بیگ،محسن شکیل، وحید زہیرفاروق سرور،شکیل عدنان،راحت ملک، سے عطاشاد کے ساتھ گزرے دنوں کے واقعات سنتے اورشئیر کرتے ہیں،اور ہمیں عطاشناسی کے پس منظر اور پیش منظرمیں کچھ نہ کچھ لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں،مری لیب کے خُنک شام کو رات میں بدلتے ہوئے ہم اس وعدے پرایک دوسرے سے اجازت لی کہ ہم عطاشاد سے ناواقفیت سے واقفیت تک کے سفر کا چیدہ چیدہ ذکر کریں گے ہم چھوٹی چھوٹی کہانیاں اوراشعار لے کر بچوں کے پروگراموں میں ریڈیواسٹیشن پہنچےہم قصباتی علاقے کے مکین ریڈیو کی شاندارعمارت،اور اُس میں خدمات انجام دینے والے ہنرمندوں کو دیکھ کرحیرانی کا اظہار کرتے ،ریڈیو کے کاریڈور میں مائیک کے پاس پہنچنے کے انتظار میں کیا کیا دیومالائی شخصیحات کو ٹیپ،کیسٹ اور اسکرپٹ لئے آتے جاتے دیکھتے تھے،ان میں ایک خوب صورت لباس تراش خراش کے ساتھ خوشبویں بکھیرتا گھنگریالے بالوں کی لٹ بار بار ماتھے سے ہٹاتے ہوئے قہقہے بکھیرتے دکھائی دیتا۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی چمک،چہرے پر مستقل سجی مسکراہٹ اور خوب صورت اردواور بلوچی سے ہموار لہجے میں گفتگُو سننے کے بعد ملنے اور بات کرنے کی خواہش پیدا ہوتی میں اور چند دوست اس خواہش میں پروگرام کے بعد بھی اس انتثظار یں کھڑے رہتے کہ شائد عطاشاد سے ہاتھ ملا سکیں ان سے بات کرسکیں،اپناتعارف کراسکیں،مگر ناکامی ہوتیایک دن آنٹی مہناز کے ساتھ اسٹوڈیو کے سامنے کھڑے تھے اچانک عطابھائی انٹر ہوئے ہم نے الآگے بڑھ کراپنا تعارف کرایا عطابھائی نے حیران کرتے ہوئے کہا،میں نے تمہاری نظم سُن لی ہے،اچھا لگا۔۔۔۔۔،میں خوشی سے گل و بال ہوا۔عطابھائی نے ہمارے لئے چائے منگوائیاب یہ واقفیت ایک تعلق میں بدلنے میں لمحہ بھر کی جست لگاکرآرٹس کونسل،پبلک لائبریری،بلدیہ ہوٹل،اور ٹی وی اسٹیشن کے کاریڈورز اور اسٹوڈیوز میں عطاشاد کے قدموں کو نشاں بناتے ہوئے آگ بڑھتے رہے،جہاں کہیں موقع ملتا شعر و ادب کے کسی نہ کسی موضوع پر بات ہوتی،ہمیں شاعری سنانے کے لئے کسی مشاعرے کے اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی تھی جہاں احباب یکجا ہوئے وہاں مشاعرے کاآغاز ہوتا، بڑی سنجیدگی اور توجہ سے ایک دوسرے کوسُناجاتا،عطابھائی خاص طور پرمطالعے کاضرورپوچھتے وہ کہتے جو مطالعہ اورمحبت نہیں کرتا اُسے کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہیں،آرٹس کونسل اور عطابھائی لازم وملزوم تھے،بلکہ اب بھی ہیں،ہم سب کامشترکہ ٹھکانہ تھا دن کا ایک بڑا حصہ آرٹس کونسل میں گزرتا،عطابھائی کے ساتھ دیومالائی شخصیحت اور باکمال افسانہ نگارخادم میرزا،درویش صفت،نامورشاعر عین سلام،کے ساتھ ساتھ عبداللہ بلوچ،جاوید ناصر،بلال،سرفراز بلوچ،حسن لہڑی، نصیرکوئل ساؤنڈ والےسے دوستی کارشتہ استوار جاتاہے ،میں اس بات کااقرار کرتا ہوں اگر غلام نبی راہی سے رابطہ نہ ہوتا ہم ڈرامہ نگار نہ بنتے اور عطاشاد سے قربت کارشتہ نہ بنتا تو ہم شاعری کی دنیا میں موجود نہ ہوتے،پھر افسانہ نگاری سے آشنائی میں خادم مرزا کا بڑاکردار رہا،پھر ہم قومی ایوان ثقافت میں اسٹیج ڈرامہ کے کردار ادا کرتے کرتے جب فارغ ہوتے تو سیدھے آرٹس کونسل چلے آتے،یہاں نامور شعراماہرافغانی،عابدشاہ عابد،ریاض قمر،امداد نظامی سے واقفیت ہونے لگی،سبھی محبت کرنے والے شفقت سے پیش آنے والے لوگ تھے،ان کی گفتگو اور مطالعے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا،پھر عطابھائی سمیت ان سب کی شگفتہ مزاجی چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے اور جملہ بازیاں،ہزلیات سُن کرجی خوش ہوجاتا،ہم ایک آدھ دن نہیں جاتے تو عطابھائی پیغام بھجواتے ہمیں بُلاتے،حال احوال کرتے،انہیں جب پتہ چلاکہ میری مادری زبان براہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا میرے بچوں کی ماں براہوئی ہے،مجھے براہوئی زبان سے بڑی محبت ہے،تم اور وحیدزھیر براہوئی ربان کی خدمت کرو،براہوئی ادب کے فروغ کے لئے کام کرو آرٹس کونسل اورمیں ہروقت حاضر ہیں،1985 میں جب میری شاعری کی پہلی کتاب گندار شائع ہوئی تو عطابھائی نے بڑی داد دی مجھ سے بہت ساری نظمیں سُنی،اورحوصلہ افزائی کی ،اب عطابھائی ہمیں ساتھ ساتھ مشاعروں میں لے جاتے رہے،اور مسلسل مطالعے کی تاکید کرتے رہے،ان کے ساتھ تقریبات میں سفر کے دوران کہیں موقع پراُن کی میخواری کی محفلوں میں شریک رہے ہربار ہمیں خماریات سے دور رہنے کی تاکید کرتے اور پیتے ہوئے ہم سے معذرت کرتے جاتے،عطابھائی کے ساتھ گزرے دنوں کی یاد ہماری محفلوں میں آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اُن کو ہم اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں،برسوں پرمحیط شب و روز میں اُن کی رہنمائی،دوستی،محبت بھرے تعلق کو سوچتے ہوئے ایک خوشگواراحساس ہوتا ہے،ریڈیو،ٹی وی سے محکمہ تعلقات عامہ،لائبریری یاآرٹس کونسل کسی جگہ آپ عطابھائی کوکسی نہ کسی جگہ پاتے،عطاشاد اب بلوچستان کا حوالہ بن گیا تھا ملکی اوربین الاقوامی سطع پر ہماری نمائندگی کرتے مشاعروں اورسیمینارز میں شریک ہوتے اپنی شاعری اور گفتگُو میں بلوچستان کے مسائل اورمنظرنامے کو موثر انداز میں بیان کرتے،انہیں دیکھ کر سُن کر ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہونے لگا کہ ہم بھی اپنے دشت و بیاباں کی کہانی سامنے لائیں اپنے خطے کی خوب صورتی اور ندرت کو بیان کریں،ایسی گفتگُو کریں جو ہمارے اردگرد کی تاریخ،تہذیب،ثقافت اورسماجی مسائل کواجاگر کرسکے،ہم صوبے سے باہر جہاں جاتے پتہ چلتا ہم سے پہلے عطابھائی ہمارا تعارف کراچکے ہیں،انہوں نے رخصتی سے کچھ عرصہ قبل ہمیں اپنی کلیات کانام تجویز کیا تھا۔اب جب نیند ورق اُلٹے گی،میں نے جب کلیات مرتب کی تو عطابھائی کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے کلیات کا یہی نام تجویز کیا اُن کی کلیات کے اب تک دوایڈیشن چھپ چکے ہیں،کلیات کی اشاعت کے مرحلے میں اُن کی فیملی نے بڑا تعاون کیا خصوصا عین سلام صاحب نے گراں قدر مشورے دئیے ،میرے دوستوں نے ایک جذبے کے ساتھ عطابھائی سے اپنی دوستی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کلیات کی اشاعت میں تعاون کیا،میری دوسری خوش بختی یہ رہی کہ اکادمی ادبیات نے جب معماران ادب کے سلسلے میں عطاشاد فن وشخصیحت پر کتاب لکھنے کافیصلہ کیا تو محترم افتخارعارف نے یہ ذمہ داری مجھے سونپی،اس کتاب کو مکمل کرنے میں نامورشاعر عارف ضیا نے بھرپور ساتھ دیا اب یہ کتاب حوالے کے طورپر پڑھی جاتی ہے،عطابھائی سے تعلق اور قربت کے بےشمار یادیں ذہن ودل کے منظرنامے پر ابھررہے ہیں جن پر کسی اور نشست میں بات ہوگی یہاں صرف ایک اہم حوالہ دے کر اس تحریر کوسمیٹتے ہیں،میں ابتدا میں ایم افضل کے نام سے لکھتا اور ڈراموں میں شریک ہوتا تھا،ایوان ثقافت میں ہم تین ہم نام فنکار ڈراموں میں کردار ادا کرتے تھے،ایک نشست میں ادریس کاوش اورامتیاز عالی صاحب نے عطابھائی سے کہا ایم افضل شاعر بھی ہے،اسے کوئی تخلص تجویز کریں،عطابھائی نے کچھ سوچنے کے بعد میں عطاشاد ہوں اور آج کے بعد یہ افضل مراد ہے تب سے افضل مراد کے نام سے یہ سفر جاری ہے،میں اب بھی خود میں عطابھائی کو محسوس کرتا ہوں،یہی میرافخر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *