معاشی قتل اور رمضان المبارک
دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا چین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا ماہ مبارک آغاز ہوا جاتا ہے دل نے چاہا کہ غریب کے لئے آواز اٹھائی جائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نگارخانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہے بلکہ اس سے بھی کم۔ مگر کیا کریں اپنے ضمیر کو مطمئن بھی تو کرنا ہے یا آپ اسے ہد ہد کی چونچ کے وہ قطرے سمجھ لیں جس نے آگ بجھانے کی جسارت کی تھی۔ میں یہ پہلے ہی وضاحت کر دوں کہ رمضان المبارک تاجران کے لئے سیزن ہے جہاں روزوں میں ثواب کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ فرض سنت اور سنت نوافل کے بدلے ثواب بنتے ہیں وہیں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ہوں جو اہل مغرب کی راہ پر چل کر احساس کر لیں۔ میرا قضیہ اس وقت کچھ اور ہے کہ مارکیٹوں سے دکانوں کے آگے لگنے والے ٹھیلوں اور اڈوں کو بڑی بے دردی سے اٹھا دیا گیا ہے یقینا یہ کام تجاوزات کے نام پر کیا گیا ہے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی کہ یہ ہزاروں غریب لوگ اپنے خاندانوں کو پال رہے ہیں اگر آپ کریم مارکیٹ یا اچھرہ گئے ہیں تو آپ میری بات کو سمجھ سکتے ہیں آناً فاناً ان سب کو بے روزگار کر دیا گیا۔ میرے علم میں نہیں کہ ان کو متبادل کیا دیا گیا میرے علم میں تو یہی ہے کہ وہاں کے دکاندار الگ سراپا احتجاج ہیں کہ ان کی دکانوں کے دو اڑھائی لاکھ کرایہ انہیں اڈے والوں کے سر پر نکلتا تھا اب وہاں کون آئے گا یہ جگہیں مڈل کلاس یا سفید پوش طبقے کا بھرم رکھے ہوئے تھیں کہ وہ کم قیمت پر اشیاء خرید لیتے تھے دکانوں سے خریداری کرنے کی تو بساط نہیں۔ یقینا میری بات کو رد کرتے ہوئے دلیل داغی جائے گی کہ آخر وہ دکانوں کے آگے کیوں پھٹے لگائے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم سے ٹریفک ڈسٹرب ہوتا ہے۔ ہم یہ بات مان لیتے ہیں مگر یہ بھی تو بتائیں کہ فٹ پاتھ پر یا اس سے پیچھے کون سی ٹریفک تھی۔ دوسری بات یہ کہ اس کا خیال آپ کو برس ہا برس کیوں نہیں آیا۔ ہم اس سے پچھلی حکومت کو برا بھلا کہتے تھے مگر وہ بھی تجاوزات کے نام پر ظلم کرنے کے بعد جلد باز آ گئی تھی مگر اس حکومت نے جو کہ مینڈیٹ پر بھی نہیں آئی اور تاجروں کی دوست پارٹی کہلاتی ہے وہ سب کچھ کر دکھایا ہے جو سراسر غریب کا معاشی قتل ہے۔ انڈسٹری بند پڑی ہے بجلی اور گیس کے بلوں نے غریب کو مار رکھا ہے۔ آخر وہ کہاں سے اپنا پیٹ بھریں اور بجلی اور گیس کے بل ادا کریں۔ بہرحال اچھا کم ہوا ہے خراب زیادہ ہوا ہے۔ جب لوگ اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کر سکیں گے تو کیا وہ ڈاکے ماریں گے یا چوری کریں گے پیسے بنانے کے تو ان کے پاس سرکاری اختیارات بھی نہیں۔ اشرافیہ کے پاس تو سو طریقے ہیں۔ اشرافیہ کا بوجھ سارا عوام پر۔ جو لوگ با اختیار ہیں ان کے لئے تو غیر ملکی قرضے بھی ہیں اور یہاں کے بنکوں کے قرضے بھی جو اکثر معاف کروا لئے جاتے ہیں۔ عام آدمی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے یہ ایک عجیب طرح کی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔رمضان شریف میں خاص طور پر آخری عشرہ میں لوگ انہی جگہوں سے عید کی شاپنگ کرتے ہیں اور پھر ان پھٹے والوں کی تو عیدی خراب ہو گئی۔ پابندی لگانے والے تو کبھی ان جگہوں کا آنے کا سوچتے بھی نہیں ہونگے۔ ان کے تو علاج بھی برطانیہ اور امریکہ میں ہوتے ہیں ان کی عیدیں اور شبراتیں بھی برطانیہ میں منائی جاتی ہیں۔ پھر جو یہاں جی رہے ہیں ان کو جینے دیں۔آپ تو سڑکیں تک اپنی نکال لیتے ہیں اور پل بنا کر اپنا راستہ آسان کرتے ہیں۔ یہ پلکوں کے نیچے بسنے والے کیڑے موڑے بھی آپ کو اچھے نہیں لگتے۔ جن کا زور چلتا ہے وہ اپنی سہولت کے لئے قریب منڈی مویشیاں بھی بنوا لیتے ہیں۔ بس ملک انہی کا ہے جن کی دہلیز پر خود بخود خالص دودھ کھاد سے پاک سبزی پہنچتی ہے یقینا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں۔جن کو میں سمجھانا چاہتا ہوں وہ تو پڑھتے ہی نہیں۔ اب ذرا سی بات کرکٹ کی ہو جائے اپنی ٹیم کے لئے ایک شعر: بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے اب تو سب جان گئے ہیں کہ ڈرے ہوئے لوگ بھی۔ کھیل میں بھی یہی کچھ ہے۔ہمت ہاری ہوئی ٹیم جو ہارنے کے خوف میں مبتلا ہو کر مریض بن چکی ہے۔اور سب سے اہم بات وہ ٹولا ہے جو اب بری طرح ایکسپوز ہو چکا ہے وہی نہیں چار کھلاڑی جو کسی تازہ خون کو آگے نہیں آنے دیتے جو پاکستان کرکٹ ٹیم کو جیتنے ہی نہیں دیتے۔ میں بہت خوش گمان شخص ہوں مگر بابر اور رضوان کا کھیل دیکھ کر مجھے یقین آ گیا کہ وہ ہماری جیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا کہ وہ پہلے دس اوورز کے پاور پلے اتنے رنز بنائیں گے۔ علاوہ ازیں بیٹنگ پر مردہ کھیل پیش کریں گے۔ایسا تو کسی غدار ہی سے متوقع ہو سکتا ہے ہم نے بابر اعظم کو سر آنکھوں پر بٹھا رکھا مگر وہ تو پرلے درجے کا ڈھیٹ شخص نکلا کہ نہیں چلنے دوں گا ٹیم کو۔ ہمارے سامنے افغانستان کی مثال ہے ہمارے کھلاڑیوں کو ڈوب مرنا چاہیے۔ اسے کھیل کہتے ہیں کہ افغانستان کی ٹیم نے برطانیہ کو دھول چٹا دی جتنا سلو ہماری ٹیم کھیلتی ہے خاص طور پر رضوان اور بابر ایسا تو تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ بائولنگ میں شہنشاہ آفریدی وسیم اور حارث رئوف دیکھیں ایسی کٹ چڑھائی کہ خدا کی پناہ ۔یہ تو شکر ہے کہ بنگلہ دیش سے میچ کے وقت بارش ہو گئی کہ ہم ایک اور ہار سے بچ گئے۔ چمپئن ٹرافی میں یہ اچھا ہوا کہ نئے سٹیڈیم بن گئے باقی جھگڑا سارا کمبل کا تھا وہ دوسرے لے گئے ۔ پوری دنیا میں ہماری کرکٹ ٹیم کا مذاق اڑا رہی ہے۔ قدرت ہی ہم پر مہربان نہیں تھی کہ صائم ایوب بھی ان فٹ ہو گئے۔