Read Urdu Columns Online

Musalmanoon Ghalat Fehmi Ka Shikar Na Hona

مسلمانو!غلط فہمی کا شکار نہ ہونا

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعدغزہ کا علاقہ اسرائیل امریکا کے حوالے کردے گا۔ دوسرے بیان میں وہ فرماتے ہیں کہ غزہ میں امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے اور دنیا کی بہترین ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ مل کر امریکہ غزہ کی تعمیر نو کرے گا اور امریکی اقدامات سے غزہ میں استحکام آئے گا۔اِس بیان کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ میں صدر ٹرمپ کے دلیرانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں، غزہ کے رہائشیوں کو آزادی سے ہجرت کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں قوانین ہیں۔اِس کے ساتھ ہی اپنی فوج کو بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو زمینی، سمندری اور فضائی راستوں کے ذریعے غزہ کی پٹی سے نکالنے کا منصوبہ تیار کرنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں۔اِس سے انکار نہیں ہے کہ ٹرمپ کو اپنے اِس اعلان پر عالمی برادری کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کے رہائشی کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہوں گے اِس کاانتظام چلانے کیلئے اْنہیں کسی دوسرے ملک کی ضرورت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے زبردستی نقل مکانی کو “نسلی تطہیر” کے مترادف قرار دیاہے۔ چین نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس بیان کی مخالفت کی ہے کہ فلسطین پر فلسطینیوں کی حکمرانی بنیادی اصول ہے، وہ غزہ کے باشندوں کی جبری منتقلی کے مخالف ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو اْن کے آبائی وطن غزہ سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ ہم فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ غزہ کے مسئلے کا پْرامن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں اْسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی قانون کی بنیادوں پر عمل پیرا رہیں اور نسلی صفائی کی کسی بھی صورت سے بچیں۔ہمیں دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنا ہوں گے۔واضح رہے کہ ہمارے نزدیک مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہی ہے کہ فلسطین میں مسلمانوں کی حکومت قائم کی جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ ایران نے ٹرمپ کے اس بیان کو غزہ پر قبضے کی منصوبہ سازی قرار دیاہے۔ ایران غزہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی طرح کی بیدخلی کو مسترد کرتا ہے۔ وائٹ ہاوس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ دنیا بھر سے آنے والے شدید ردعمل کے بعد کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ صدر ٹرمپ کا غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں ہے۔وہ خطے میں استحکام کے لیے غزہ کی تعمیر نو کے لیے پْرعزم ہیں اور غزہ سے فلسطینیوں کی عارضی منتقلی چاہتے ہیں اور اس کے لئے امریکا کی شمولیت ضروری سمجھتے ہیں۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد تقریباً ساڑھے 13 ماہ تک غزہ پر مسلسل بمباری کی اور بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت کم و بیش 46 ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام کیا لیکن کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ اسرائیل کا سب سے بڑا ہدف تو غزہ کا قبضہ حاصل کرنا ہی تھا جو وہ دنیا کی بہترین سمجھی جانی والی ٹیکنالوجی کے حامل اسلحے سے لیس فوج کے ساتھ بھی نہیں کرسکا۔جنگ بندی کی ضرورت اسرائیلی افواج کو تھی۔حماس کے پاس اسرائیل کے وہ چند فوجی قید تھے کہ اْسے حماس کے ہزاروں قیدی رہا کرنے پڑے۔اسرائیل پر جنگ بندی کے لئے اپنی عوام کی طرف سے بھی خاصا دباو رہا ہے جسے وہ کسی خاطر میں نہیں لاتا مگر موقع کی نزاکت کے حوالے سے اْسے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے اور امریکی حکم ملتے ہی وہ اِس کڑوے گھونٹ کو اْگل بھی سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے بیان سے بے شک بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکی صدر خواہ کسی بھی جماعت سے ہو، صیہونیوں کا آلہ کار ہی ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے جس طرح دنیا میں جنگیں ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا وہ ایک ڈھکوسلے اور شاطرانہ چال سے زیادہ کچھ نہیں تھا جس کا مقصد محض امریکی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔یہ بات بھی طے ہے کہ ٹرمپ کوئی بھولی بھالی شخصیت نہیں ہیں بلکہ بہت “کائیاں” شخص ہے۔اْن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غیر روائتی امریکی صدر ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو نہیں کہتے اور جو کہتے ہیں وہ ضرور کرتے ہیں۔دنیا اْن کے بیانات کو محض بیانات خیال کررہی ہے جبکہ وہ ایک ماہر ریسلر کی طرح موقع کی تلاش میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود کو امن کا علمبردار کہلوانے والا ٹرمپ ارض فلسطین میں امن قائم کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد اپنی مرضی سے نئی جنگ چھیڑنے کو ہے۔”رسی جل جاتی ہے مگر بل نہیں جاتا” کے مصداق افغانستان میںسخت ہزیمت اْٹھانے کے بعد بھی امریکہ نئی جنگ کے لئے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔اِس جنگ بندی سے جہاں اسرائیل کو سانس لینے کا موقع ملا ہے، اْس سے کہیں زیادہ فلسطینیوں کوتازہ دم ہونے کا موقع ملا ہے۔فلسطینیوں کے پاس گنوانے کو پہلے بھی کچھ نہیں تھا اور اب بھی کچھ نہیں ہوگا جبکہ اب امریکی صدر کے بیان کے بعد اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اپنی ساکھ ضرور گنوائے گا۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کوچاہئے کہ ٹرمپ ، یاہو گٹھ جوڑ اور صہیونیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔مل کر فلسطینی مسلمانوں کی مدد اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کریں تاکہ باطل قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا جا سکے اور وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *