نظام عدل ؟
آج کل اعلیٰ عدلیہ کے معاملات دیکھتا ہوں تو مارے شرم کے اپنا قد چھوٹا محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ ججز ایسے ہیں، جن کی وجہ سے ہم جیسوں کا عدلیہ پر اعتماد آج بھی زندہ ہے۔ وہ بظاہر احتجاج کرنے سے گریزاں ضرور ہیں مگر اپنے تئیں جہاں تک ہو سکتا ہے وہ احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں، تبھی ہر دوسرے دن جوڈیشل کمیشن یا چیف جسٹس سپریم کو رٹ کو خط لکھ کر نشاندہی کر دیتے ہیں کہ معاملات خراب نہیں بلکہ 360ڈگری کے زاویے سے اْلٹ چل رہے ہیں،،،۔اب ہو یہ رہا ہے کہ حکومت 26ویں آئینی ترمیم کو بنیاد بنا کر ججز کی تعیناتی کر رہی ہے،،، اس طرح سپریم کورٹ میں کل ججز کی تعداد 24ہو چکی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی تین نئے ججز تعینات کرکے سینیارٹی لسٹ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ حکومت کی ان حرکات کے بعد بااصول ججز یقینا پریشان ہیں،بظاہر وہ سرنڈر نہیں کریں گے۔ تبھی متبادل بندوبست کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ ان ججز کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے، جیسے بقول رانا ثناء اللہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔۔۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ فرماتے ہیں کہ ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی، کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا، اللہ مالک ہے، ڈرے تو وہ جس نے کچھ کیا ہو۔کسی سے کوئی ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، کمرے میں موجود ہاتھی کسی کو نظر نہ آئے تو کیا کہہ سکتے ہیں، باقی تمام ججز کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور اکٹھے چائے بھی پیتے ہیں۔ مجھے ایک جج صاحب بہت یاد آتے ہیں جو واقعی معزز تھے۔ اس معزز جج کی یاد اس لئے آئی ہے کہ اگر وہ بھی کسی بند کمرے میں تھوڑا سا جھک جاتے اور کسی فیصلے کے ذریعے تھوڑا سا جھکجاتے تو بڑی آسانی سے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن جاتے۔ لیکن وہ ایک باصول جج تھے، نہ تو بند کمرے میں جھکے نہ ہی کسی عدالتی فیصلے میں اپنے آپ کو گرایا بلکہ طاقت کے سامنے کھڑے ہو کر انکار کردیا۔ اس بہادر جج کا نام جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی تھا جو جسٹس کے ایم صمدانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ضیاء کی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے، انہوں نے ہی بھٹو کو پہلی بار میں ضمانت دی۔ جس پر ضیاء الحق آگ بگولا ہوگئے اور صمدانی صاحب کی تنزلی کرد ی گئی۔ اْس کے بعد اْن جج صاحب کا کیا حال ہوا یہ اْن کے خاندان کے لوگ ہی جانتے ہیں مگر وہ تاریخ میں امر ہوگئے۔ مجھے صمدانی صاحب ، اسی لیے یاد آگئے کیوں کہ وہی کردار آج جسٹس منصور علی شاہ ادا کر رہے ہیں،،، فرق صرف اتنا ہے کہ اْس وقت ڈکٹیٹر شپ تھی ، مگر آج جمہوریت ہے۔ بلکہ اسے افسوس ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ کا دور بنا دیا ہے کہ جو اصول پر قائم رہے اْس ایسا سبق سکھاوکہ آئندہ کوئی بھی جج، بیوروکریٹ یا سیاستدان اصولی زندگی نہ گزار سکے! ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتی ہے، یہ آزادی اْسی صورت ممکن ہوتی ہے جب اعلیٰ عہدیداران اپنے عہدے کا پاس رکھتے ہوئے میرٹ پر فیصلے کریں، غریب امیر میں تفریق کیے بغیر فیصلے کریں، کمزور طاقتور کو جانچے بغیر فیصلے کریں۔ ججز کی تعیناتیاں خالصتاََ میرٹ پر ہوں، سیاسی مداخلت کسی صورت نہ ہو، نہ ہی ججز کے ساتھ سیاسی لوگوں کی وابستگیاں قائم ہوں اور نہ ہی سیاستدان اپنی اپنی فہرستیں تیار کریں کہ کس جج کو کس کورٹ کا حصہ بنایا جائے وغیرہ۔ ایسا اس لیے بھی ’’جرم‘‘ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اْس شخصیت یا اْس سیاسی جماعت کا مرہون منت رہے گا، کبھی اپنے ’’احسان مندوں‘‘ کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گا، وہ کبھی عدلیہ کی بہتری کے لیے کام نہیں کرے گا، وہ کبھی عدلیہ کی آزادی کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ جبکہ اس کے برعکس میرٹ پر تعینات ہونے والا جج یا مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے جج کے پاس ایک وژن ہوگا، ایک عزم ہوگا، جوش ہوگااور ولولہ ہوگا۔ ورنہ تو ماضی میں ایسے سفارشی ججز بھی تعینات رہے جنہیں فیصلے لکھنے بھی نہیں آتے تھے۔ اسی وجہ سے ہم 139ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر موجود ہیں۔ ہمارے مسائل ایسے ہیں کہ جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہے، ہر ادارے میں اس وقت آگے بڑھنا مشکل ہو چکا ہے، لہٰذابہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی کی طرز پر عدلیہ میں بھی تعیناتیاں کی جائیں،یعنی ججز کی کوالیفیکیشن اور میرٹ بالکل سی ایس پی افسران کی طرز پر ہونا چاہیے، جیسے ہی کوئی وکیل سول جج بھرتی ہو، اْس کے بعد اْس کی 2سال کی ٹریننگ ہو، جس کے بعد وہ مقدمات سنے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اْس کی ترقی ہوتی رہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ٹاپ رینکنگ عدالتی نظام جن میں سویڈن، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر ممالک میں ججز کی تعیناتی اسی طرز پر کی جاتی ہے، وہاں عدلیہ میں سیاسی عمل دخل تو بہت دور کی بات اس حوالے سے سوچنا بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباو رہتا تھا۔ اسی دباو کے حوالے سے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت برا ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوتے ہیں، جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا۔ ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ’’بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں‘‘، اس کتاب میں انہوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ’’سیاسی ججز‘‘ کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے، کیوں کہ عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ’’حوالے‘‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ خیر انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔ بہرکیف اگر ایسا نہیں ہوتا تو اعلیٰ عدلیہ پر کوئی تنقید تو نہیں کر سکتا مگر اس کی کارکردگی کے حوالے سے ’’خطوط‘‘ ضرور لکھے جائیں گے ، لہٰذااگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواء مقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کم و بیش 50لاکھ خاندان متاثر ہو رہے ہیں