پڑے جب حال پر ماضی کا پرتو
ایکسپو سنٹر لاہور کے کتاب میلے میں پروفیسر ساجد علی سے مکالمہ تھا تو مزے کا۔ پر گھر آ کر محسوس ہوا کہ بطور طالب علم گورنمنٹ کالج میں میرا ہم عصر اور فلسفہ کا یہ جید استاد بھی اب میری طرح بڈھے بابوں میں شامل ہو گیا ہے۔ وہی بابے جو بات بات پر کہہ دیا کرتے ہیں ”ٹھیک ہے مگر وہ چیز نہیں جو ہمارے زمانے میں تھی۔“ یہاں ’چیز‘ صرف مادی اشیا کا استعارہ نہیں ہوتی بلکہ نئی موسیقی، شاعری، لباس اور غذا، سبھی کچھ ایک مشفقانہ حقارت کی زد میں رہتا ہے۔ پچاس سال پہلے ابا سے بار ہا سُنا ”اب کہاں وہ ڈیرہ دون کے چاول کہ ابال رہے ہیں باورچی خانہ کے اندر اور خوشبو پھیلی ہوئی ہے باہر گلی تک۔“ پھر منڈیوں کے بھاؤ کہ چابی کا لٹھا چار آنے گز تھا تو دو گھوڑے کی بوسکی اٹھارہ آنے۔ اِس سے آگے پنکج ملک، کندن لال سہگل اور شمشاد بیگم کے گانے یا سہراب مودی کی ’پکار‘ میں چندر موہن اور پری چہرہ نسیم کے ڈائیلاگ۔ تو کتاب میلہ میں میرے اور ڈاکٹر ساجد علی کے ساتھ آخر ہوا کیا؟
کچھ نہیں ہوا، بس سا جد علی نے اتنا کہا تھا کہ ہم اپنے ملک میں کتاب بینی کا کلچر پیدا نہیں کر سکے۔ اِس پر اُن ماڈرن والدین کا ذکر چھڑ گیا جو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے اور کہانیاں سنانے کی بجائے اُنہیں ٹی وی کی گود میں ڈال دیتے ہیں۔ تو کہِیں ڈاکٹر ساجد او ر مَیں وقت کے دھارے میں اُسی طرح منجمد تو نہیں ہو گئے جیسے نصف صدی پہلے ہماری پچھلی نسل ہو گئی تھی؟ ممکن ہے پرانی اور نئی اقدار کا یہ ٹکراؤ اور اِس پر رد عمل کبھی ختم نہ ہونے والی تہذیبی ٹوٹ پھوٹ کا تسلسل ہو۔ قدرت اللہ شہاب نے یونہی تو نہیں لکھا تھا کہ ”وقت کا کاررواں نہ آنسوؤں کا رنگ بدل سکا ہے نہ خون جگر کا، تغیر صرف اسلوب بیان اور پیرایہ ء اظہار میں بر پا ہوتا ہے۔ باقی ہر لحاظ سے حساس انسان کا فانوسِ خیال ابنِ آدم کے ازلی ورثے پر یکساں آب و تاب سے چمکتا رہتا ہے۔“
اگر حقیقت یہی ہے تو یکساں فانوسِ خیال کے ہوتے ہوئے گرد و پیش کے مناظر دیکھنے کے لیے انسانی جبلت کی انفرادی آنکھ اپنی مرضی سے نیلے، پیلے رنگ کے بلب کیوں ر وشن کرتی رہتی ہے؟ ہمارے والدین کی نسل میں سے چند ایک پاکستان پہنچ کر بھی 1930 ء کی دہائی والے علی گڑھ کی تلاش میں رہے۔ ایسے بھی تھے جن کی کرنال بوٹ شاپ سے خریدے گئے جوتے مرمت کرانے کی آرزو ڈھلتی عمر تک زندہ تھی۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ لکھنؤ کے محلہ کاسن گنج سے چھالیہ کی تھیلی یا بٹوئیہ ہاتھ میں لیے آزادی کا سفر طے کرنے والا شاعر دانتوں میں پان جکڑے ایک ہی ہانک لگا رہا ہے کہ ”خادم بھائی، کہاں گئیں وہ کھماج کی محفلیں۔ ہائے ہائے“۔
آپ کہیں گے کہ شاہد ملک یہیں رک جاؤ، تم نے ماضی پرستی کی فردِ جرم کا جواب تو دیا نہیں بلکہ پرانی اور ایک گونہ ’پاٹی پرانی‘ نسل کا ’توا‘ لگا رہے ہو۔ یہ سُن کر خیال آئے گا کہ 1978 ء میں پاک ٹی ہاؤس کے باہر گرین بیلٹ کی طرف منہ کر کے خود مَیں نے ہی دوستوں سے کہا تھا ”یار، اِس نظارے کو ذہن میں بٹھا لو، چالیس سال بعد یاد کرکے کہا کریں گے کہ کیا اچھا زمانہ تھا۔۔۔ ویسے دیکھ لو کتنا برا زمانہ ہے، مانگ مانگ کر سگریٹ کے جوائنٹ پیئے جا رہے ہیں‘‘۔ اب سینتالیس سال گزر جانے پر وقت کا پہیہ اُلٹی طرف گھمانے کی کوشش اِس لیے نہیں کرتا کہ طبعی سطح پر اِس میں کامیابی کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے۔ رہی خواب و خیال کی دنیا تو اِس امکان کے پیچھے بھی کئی نجی قسم کے خدشات کلبلانے لگتے ہیں۔
ایک تو یہی کہ برسات کے موسم میں بی اے کا امتحان دوبارہ دینا پڑے گا جس کی ساون بھادوں میں تیاری کے دوران سیالکوٹی مچھروں نے جسم کے ناقابل ِ بیان حصوں میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ دوسری وجہ یہ کہ ممی ڈیڈی بچوں کے مقابلے میں ہمارے بچپن کے غذائی مشاغل کچھ بیک ورڈ سے لگتے ہیں۔ جیسے اسکول میں ایک اکنی کے عوض ابلے ہوئے کابلی چنوں کے اوپر بذریعہ لوٹا املی کا پانی، پھر کرکٹ میچ کے لنچ میں آلو قیمہ اور فی کھلاڑی دو دو ہری مرچیں۔ چنانچہ زندگی میں پہلی مرتبہ جب ائر مارشل اصغر خان کی جسٹس پارٹی کے افتتاحی کنونشن میں پہلی بار ایک لمبے سے بند میں کھیرے ٹماٹر نوش کرنا پڑے تو اِسے نگلتے ہی اکثر کارکن دعوت چھوڑ کر باہر آ گئے تھے کہ چلو اب کہیِں چل کر روٹی کھاتے ہیں۔ بعد ازاں پتا چلا کہ یہ روٹی کا متبادل تھا اور امریکہ کو یونائٹڈ سٹیٹس کہنے والے اِسے برگر کہتے ہیں۔
میرے نزدیک ماضی کو ذہن میں محفوظ رکھنا اور ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے کی خواہش دو الگ الگ رویے ہیں۔ معروف نیورو سائیکاٹرسٹ آلیور سیکس نے ’گمشدہ ملاح‘ کے زیر عنوان اپنی کیس اسٹڈی میں ایک مہذب، خوش شکل اور بظاہر صحت مند آدمی کا قصہ بیان کیا ہے۔ اُسے اسکول کی تعلیم اور سترہ سال کی عمر میں وائرلیس آپریٹر کے طور پر نیوی کی ملازمت کر لینے کے دو برس بعد تک کے سب واقعات یاد تھے۔ جیسے بچپن کے ٹیلی فون نمبر، ساتھی ملاحوں کے نام، اہم جنگی مشن، وہ آبدوز یں جن پر ڈیوٹی لگی، نیز برقی پیغامات کے لیے مورس کوڈ اور ٹیپنگ کی مہارت۔ پھر بھی انچاس سالہ مریض کے لیے جنگ عظیم کا خاتمہ یادوں کے تسلسل کا خاتمہ بن گیا، اِس سے آگے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔ گویا حافظے کی گاڑی شاہراہ سے اتر کر کچے پہ آگئی۔
مخصوص زمانی محل وقوع میں منجمد ہو جانے والے اِس شخص کی زندگی کو با مقصد، دل چسپ اور بار آور بنانے کے لیے معالج نے جو جتن کیے وہ ایک دلپذیر داستان ہے۔ تاہم اِس سوال کا جواب نہ مِلا کہ کیا انفرادی حافظہ ہی شخصیت ہے اور کیا ہمارے دلائل، محسوسات اور قول و عمل کی عمارت اِسی پر کھڑی ہوتی ہے؟ مَیں نے بھی کتاب میلے سے واپس آ کر اپنے طور پر بہت سر مارا مگر حافظے کے بغیر زندگی کی معنویت اور ذات کی آگہی بے سمتی کا شکار لگی۔ بالکل ویسے جس طرح گزشتہ سال بیدیاں روڈ کے ایک فار م ہاؤس میں تقریبِ شادی پہ جاتے ہوئے گوگل میپ سے مدد طلب کی تو فرمایا Unknown destination۔ اِس پر گورڈن کالج میں علم ِ تاریخ کے استاد نصراللہ ملک کی نصیحت یاد آئی کہ بیٹا، یادوں کی دیکھ بھال کیا کرو، حافظے کی گلی صاف ہو تو آدمی مستقبل کے راستے پر نہیں بھٹکتا۔ صاحبِ طرز غزل گو شاہد نصیر نے شاید اِسی کا اشارہ یہ کہہ کر دیا تھا:
اٹھاؤ جام ِ نورِ حسن ِ فردا
پڑے جب حال پر ماضی کا پرتو