Read Urdu Columns Online

PECA Act Aur Vote Ki Izzat

پیکا ایکٹ اور ووٹ کی عزت

حکومت نے پراسرار طور پر جلد بازی میں پیکا ایکٹ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروا لیا جس کے بعد پاکستان بھر میں صحافیوں میں اشتعال پیدا ہو گیا اور انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کے لیے پورے ملک میں احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے ۔ صحافی اس پیکا ایکٹ کو کالا قانون اور آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہے ۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی ٹریبیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے تو دوسری طرف غیر قانونی مواد اور اس کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے ۔ بل کے مطابق ایسا مواد جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کردے اس نوعیت کا مواد غیر قانونی ہے۔ عوام یا ایک سیکشن کو، حکومتی یا پرائیویٹ پراپرٹیز کو نقصان پہنچانے کے لیے اشتعال دلانا، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ نفرت انگیز توہین آمیز فرقہ واریت پر مبنی کانٹینٹ کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بل کے مطابق اراکین پارلیمنٹ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین عدلیہ مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا ۔ پیکا ایکٹ کی گرفت اس قدر وسیع بنا دی گئی ہے کہ اس کی زد میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کروڑوں افراد آ سکتے ہیں ۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کو اپنی اور ریاستی اداروں کی توہین کی بڑی فکر ہوتی ہے مگر وہ عوام کی توہین کے سلسلے میں کبھی کوئی قانون سازی نہیں کرتے ۔
ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلائے گا جو غلط ہوں یا فیک ہوں یا جس سے خوف و ہراس پھیلے یا عوام میں افرا تفری اور انتشار پیدا ہو۔ اس شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکیں گی ۔ پیکا ایکٹ کے تحت قائم کی جانے والی ریگولیٹری اتھارٹی تحقیقاتی ایجنسی ٹریبیونل اور کمپلینٹ کونسل اپنے فرائض انجام دیں گی۔ اس بل کے تحت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے قائم کی جائے گی جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا اور صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ یہ اتھارٹی لوگوں کی آن لائن سیفٹی یقینی بنائے گی ملک میں غیر قانونی  سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرے گی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر ریونیو معطل یا رجسٹریشن ختم کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس قانون پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وقتی طور پر یا مستقل بلاک کر سکے گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور آٹھ ممبران پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری داخلہ چیئرمین پیمرا اور چیئرمین پی ٹی اے ایکس آفیشو ممبران ہوں گے۔ چیئرمین اور دیگر پانچ ممبران کی تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی۔ ان کی مدت پانچ سال کے لیے ہوگی اور ایکسٹینشن نہیں دی جا سکے گی۔ 10 سال کا عملی تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئر انجینئر ایڈوکیٹ سوشل میڈیا پروفیشنل اتھارٹی کے ممبران میں شامل ہوں گے ۔ اتھارٹی کے مالی سال کے آخر میں سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ اس بل کے مطابق نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کر سکے گی ۔ سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل ایک چیئرمین اور چار ممبران پر مشتمل ہوگا جہاں عام لوگوں تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی اور ان درخواستوں کو پراسس کیا جائے گا چیئرمین کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوگی جس میں وفاقی حکومت تین سال کی مزید توسیح دینے کی مجاز ہوگی وفاقی حکومت اس بل کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹربیونل میں درخواست دے سکے گا جبکہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60 دن میں سریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا ۔ تمام کیسز کے فیصلے 90 دن کے اندر کیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل ہوگا چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے کوالیفائیڈ ہو۔ ایک ممبر ایسا شخص ہوگا جو کسی بھی پریس کلب کا ممبر ہو، جرنل ازم کی ڈگری رکھتا ہو اور اس کا پیشہ ورانہ تجربہ12 سال کا ہو۔
 دوسرا ممبر سافٹ وئر انجینئر ہوگا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہوگا۔ چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی تین سال کے لیے کی جائے گی۔ اس بل کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بل کے تحت انویسٹیگیشن اور پراسیکیوشن کرے گی۔ اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائیگا ۔ پاکستان میں میڈیا کو چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے ۔ صحافت کی آزادی کی تاریخ افسوس ناک ہی رہی ہے۔ ہر حکومت یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی کو سلب کرے اور حکومت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے نہ آ سکے ۔ پاکستان کے صحافیوں نے آزادی صحافت اور اظہار رائے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ وہ کسی صورت پیکا جیسے کالے قانون کو برداشت نہیں کریں گے اور اپنی جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک پیکا ایکٹ واپس نہیں لے لیا جاتا ۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے صحافیوں کو اشارہ دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کے لیے تیار ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اپنی اس غلطی کو تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے وعدے کے مطابق صحافیوں کے نمائندوں کے ساتھ پیکا ایکٹ کے بارے میں تبادلہ خیال نہیں کیا ۔ اگر صحافیوں کو اعتماد میں لے لیا جاتا تو موجودہ کشیدگی اور تناؤ سے بچا جا سکتا تھا۔ آئین اور قانون کے ماہرین کے مطابق پیکا ایکٹ پاکستان کے آئین کی روح کے خلاف ہے جو ہر شہری کو آزادی اظہار اور رائے کا حق دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سائبر کرائم کو کنٹرول کرنا ہر حکومت کا فرض ہے فیک نیوز کی بھرمار اور بلاجواز بے بنیاد توہین پر مبنی مواد کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے مگر  ایسی قانون سازی سے گریز کرنا چاہیے جسے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جا سکتا  ہو۔ پی پی پی آزادی اظہار کی حامی رہی ہے۔ افسوس کہ اس نے بھی متنازعہ پیکا ایکٹ کو سپورٹ کیا۔
آج 8 فروری ہے۔ گزشتہ سال 8 فروری 2024ء کو پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین عام انتخابات کرائے گئے ۔ پاکستان کی  مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا گیا۔
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان جیل میں قید تھے اور عام انتخابات سے صرف ایک ہفتہ پہلے ان کو تین مقدمات میں قید کی سزائیں سنائی گئیں ۔ پاکستان کے طاقتور ریاستی اداروں اور عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کا پختہ یقین تھا کہ سزاؤں کی وجہ سے تحریک انصاف کے ووٹرز عمران خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں مایوس ہو جائیں گے اور ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ ڈے پر گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے ۔ حیران کن اور غیر متوقع طور پر عمران خان کے حامیوں نے پاکستان کی  تاریخ کا انتخابی معجزہ کر دکھایا ۔ وہ اس جوش جذبے ولولے اور عزم کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے اور انتخابی نشان ڈھونڈ  ڈھونڈ کر ووٹ ڈالے جیسے  ان کو یقین ہو کہ جو عمران خان کو ووٹ دے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا ۔ الیکٹرانک میڈیا کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار پولنگ ڈے  8 فروری کی رات 11 بجے تک فارم  45 کے مطابق اکثریت سے جیت رہے تھے ۔ 9 فروری 2024ء کو فارم 47 کے مطابق عمران خان کے مخالف امیدوار انتخابات جیت گئے ۔ جو لوگ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے تھے انہوں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ووٹ کی عزت کی پامال کر  دیا ۔ انہوں نے نہ صرف کھلی دھاندلی کو قبول کرلیا بلکہ اس کے بینفشریز بن گئے ۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی حکومت دھاندلی کے ذریعے برسر اقتدار آئی وہ کبھی پاکستان کے مسائل حل نہیں کر سکی بلکہ اس نے پاکستان کے مسائل میں ہمیشہ اضافہ ہی کیا ہے کیونکہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم کی گئی حکومت کو  عوام کا اعتماد ہی حاصل نہیں ہوتا ۔ طاقت کا سرچشمہ اور پاکستان کے مالک عوام ہیں لہذا مالکوں کے اعتماد کے بغیر حکومت اور ریاستی ادارے کامیابی اور کامرانی کے ساتھ نہیں چلائے جا سکتے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے اور جتنی جلدی پاکستان کے سٹیک ہولڈرز اس سبق کو سیکھ جائیں گے پاکستان کا مستقبل سلامت اور مستحکم ہو جائیگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *