Read Urdu Columns Online

PIA Pakistan Ki Pehchaan

پی آئی اے پاکستان کی پہچان 

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا شمار ایک وقت میں دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا۔ اپنے قیام کے بعد سے یہ ایئرلائن نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی خدمات، جدت اور بہترین سروس کی وجہ سے پہچانی جانے لگی۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) 1946 میں “اورینٹ ایئر ویز” کے نام سے قائم ہوئی اور 1955 میں اسے پی آئی اے کے طور پر قومی ایئرلائن کا درجہ دیا گیا۔پی آئی اے نے 1955 میں بطور قومی ایئرلائن اپنی پہلی پروازوں کا آغاز کیا اور جلد ہی جدید طیارے اور بہترین سروسز متعارف کروائیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں کی یہ ہوائی سفر کیلئے ترجیح بن گئی۔ 1960 کی دہائی میں، پی آئی اے نے دنیا کی تیز ترین پروازوں میں شامل ہو کر ایک تاریخی سنگ میل عبور کیا۔1964 میں پی آئی اے پہلی ایشیائی ایئرلائن بنی جس نے چین کے لیے پرواز شروع کی۔ 1970ء کی دہائی میں پی آئی اے کا سلوگن “گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد” عالمی سطح پر مشہور ہوا۔دنیا کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے بوئنگ 747 اور ایئربس A300 جیسے جدید طیارے اپنے فلیٹ میں شامل کیے۔پی آئی اے کو اپنی اعلیٰ سروسز، وقت کی پابندی اور مہمان نوازی کے باعث عالمی سطح پر شہرت ملی۔ کئی غیر ملکی ایئرلائنز نے پی آئی اے کے عملے سے تربیت حاصل کی، جن میں امارات ایئرلائن بھی شامل ہے، جس کے آغاز میں پی آئی اے نے معاونت فراہم کی۔پی آئی اے نے دنیا کی سب سے طویل نان اسٹاپ پروازوں میں سے ایک کا آغاز کیا۔کئی عالمی شخصیات نے پی آئی اے کے ذریعے سفر کیا، جن میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم بھی شامل ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں پی آئی اے کے دفاتر قائم کیے گئے اور پاکستانیوں کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کی گئیں۔پی آئی اے نے نہ صرف ہوابازی بلکہ کھیل اور ثقافت کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔کرکٹ اور ہاکی کے کئی بڑے کھلاڑی پی آئی اے کے اسپورٹس ونگ سے وابستہ رہے۔وقت کے ساتھ پی آئی اے کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں مالی خسارہ، ناقص انتظامیہ، جدید طیاروں کی کمی، اور یورپ و امریکہ میں سفری پابندیاں شامل ہیں۔ 2020 میں یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی، جس کی وجہ جعلی لائسنس اسکینڈل تھا۔عمران خان دور میں جعلی لائسنس سکینڈل کی بنیاد پر پی آئی اے پر یورپ میں پروازوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے ساڑھے چار سال کے طویل وقفے کے بعد یورپ کے لیے اپنی پروازیں بحال کر دی ہیں۔ 10 جنوری 2025 کو اسلام آباد سے پیرس کے لیے پہلی پرواز روانہ ہوئی، جس میں 323 مسافر سوار تھے۔ برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی کے سلسلے میں بھی مثبت پیش رفت جاری ہے۔اب پی آئی اے بہتری کی جانب گامزن ہے۔ 2024 میں اس کی یورپ کی پروازیں بحال ہونا شروع ہوئیں، اور توقع ہے کہ 2025 تک لندن اور دیگر برطانوی شہروں کے لیے بھی پروازیں بحال ہو جائیں گی۔ حکومت اور انتظامیہ پی آئی اے کی نجکاری کے منصوبے پر بھی غور کر رہی ہے تاکہ اسے جدید اور منافع بخش ادارہ بنایا جا سکے۔پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق، برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ اور ایوی ایشن کی ٹیم نے حالیہ آڈٹ کے دوران پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے معیار پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ مارچ کے وسط تک برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بحال ہو جائیں گی۔ پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی سے نہ صرف مسافروں کو سفری سہولت میسر آئے گی بلکہ ایئرلائن کی آمدنی میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس پیش رفت کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولت ملے گی۔ ماضی قریب میں پی آئی اے کو یورپ اور برطانیہ میں لگنے والی پابندی کی وجہ سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے تاہم حالیہ اقدامات اور معیار کی بہتری کے بعد یہ پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں جو کہ قومی ایئرلائن اور مسافروں کے لیے خوش آئند ہیں۔

پی آئی اے پاکستان کی پہچان اور قومی فخر کی علامت رہی ہے۔ اگرچہ اس کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، مگر اصلاحات اور بہتر حکمت عملی سے یہ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ قومی ایئرلائن کی ترقی نہ صرف سفری سہولت بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔چونکہ پی آئی اے کا ماضی بے شمار کامیابیوں اور فخر سے بھرا ہوا ہے اور یہ ایئرلائن کبھی عالمی معیار کی سروس اور جدیدیت کا استعارہ تھی۔ اگرچہ بعد میں مختلف وجوہات کی بنا پر زوال آیا، مگر اس شاندار تاریخ کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے اگر اصلاحات اور جدیدیت پر توجہ دی جائے۔ پی آئی اے ماضی میں پاکستان کی پہچان تھی اور اگر درست فیصلے کیے جائیں تو دوبارہ اسی مقام پر پہنچ سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *