رمضان برکات کے ساتھ فرائض اور زکوٰۃ کی ادائیگی
ماہ رمضان مسلمانوں کیلئے اللہ کی خاص رحمت کرم برکات اور انسانی خوا ہشات کو قربان کرنے صبر ضبط اور انسانیت کا سبق سیکھنے اور اپنوں کی قدر اور اللہ کے قریب ہونے کا وقت عبادات کیساتھ ساتھ انصاف حقوق کی ادئیگی اور اپنے گھروں میں اسلام کی تبلیغ اور عملی نمونہ بن کے اسلام کا راستہ بتانے کا اہم فریضہ بھی ادا کرناہر مسلمان بالغ اور شعور رکھنے والے ہر شخص کی اجتماعی ذمہ داری جو مسلم معاشرے کی تشکیل میں آپ کو عملی اور با کردار مسلمان کے طور پر پیش کرنے اور پورے سال کے لیے تیاری کا موقع مہیا کرتا ہے اور آپ کو بھی اپنی ٹیونگ کا وقت ملتا ہے اور باعمل ہونے کیلئے ماحول بھی ملتا ہے اس کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لیے زکوٰۃ جیسے اہم ترین واجب فرض کی ادائیگی کا موقع بھی جس کی رمضان میں ادائیگی آپ کے ثواب کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے اور دوسروں کے احساس کو سمجھنے کی توفیق بھی اللہ آپ کو دیتا ہے زکوٰۃ ہر صاحب نصاب پرواجب ہے کسی قسم کی معافی نہیںہے
’’ زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں ‘‘ طہارت و برکت اور بڑھنا ’’ اصطلاح شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں اپنے مال کی مقدار متعین کے اس حصہ کو جو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی مستحق کو مالک بنادینا ‘‘ زکوٰۃ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی دونوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھ لیجیے کہ یہ فعل یعنی اپنے مال کی مقدار متعین کے ایک حصہ کا کسی مستحق کو مالک بنا دینا) مال کے باقی ماندہ حصے کو پاک کردیتا ہے اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے برکت عنایت فرمائی جاتی ہے اور اس کا وہ مال نہ صرف یہ کہ دنیا میں بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے بلکہ آخروی طور پر اللہ تعالیٰ اس کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے مالک کو گناہوں اور دیگر بری خصلتوں مثلاً بخل وغیرہ سے پاک و صاف کرتا ہے اس لیے اس فعل کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
’’ زکوٰۃ ‘‘ کو صدقہ بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ فعل اپنے مال کا ایک حصہ نکالنے والے کے دعویٰ ایمان کی صحت و صداقت پر دلیل ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کب فرض ہوئی ؟
صدقہ فطر2 ہجری میں واجب کیا گیا تھا زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں اگرچہ علماء کے یہاں اختلافی اقوال ہیں مگر صحیح قول یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوگیا تھا مگر اس حکم کا نفاذ مدینہ میں ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی پہلی تاریخ کو ہوا ہے گویا زکوٰۃ یکم رمضان 2ہجری میں فرض قرار دی گئی اور اس کا اعلان کیا گیا۔
زکوٰۃ تمام امتوں پر فرض تھی اجتماعی طور پر یہ مسئلہ ہے کہ زکوٰۃ انبیاء کرام پر فرض و واجب نہیں ہے البتہ جس طرح سابقہ تمام امتوں پر نماز فرض تھی اسی طرح امت محمدی سے پہلے ہر امت پر زکوٰۃ فرض تھی ہاں زکوٰۃ کی مقدار اور مال کی تحدید میں اختلاف ضرور رہا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں اسلامی شریعت کے احکام بہت آسان اور سہل ہیں جب کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اتنی آسانی نہیں تھی۔
زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کی تاکید
قرآن مجید میں بتیس جگہ زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ نماز روزہ اور زکوٰۃ دونوں کے کمال اتصال کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ زکوٰۃ کی فضیلت و تاکید کی دلیل بھی ہے پھر یہ کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوٰۃ کا علیحدہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو دنیاوی و آخروی اجر وثواب اور سعادت و نیک بختی کے دل کش و سچے وعدوں سے سرفراز فرمایا ہے اور اس کی ادائیگی سے باز رہنے والوں کو جیسے سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے کہ اللہ شاہد اہل ایمان کے قلوب ان کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں کیسے بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے باز رہتے ہیں اور ان عذابوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ (العیاذ باللہ)
چونکہ زکوٰۃ اسلام کا ایک بڑا رکن ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے اس لیے زکوٰۃ کا انکار کرنے والا کافر اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا فاسق اور شدید ترین گناہ گار ہوتا ہے بلکہ علماء لکھتے ہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے والا اس قابل ہے کہ اسے قتل کردیا جائے (محیط السرخسی)
مال پر ایک سال کامل گزر جانے کے بعد صاحب نصاب پر علی الفور زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس کی ادائیگی میں تاخیر گناہ گار بناتی ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سال پورا ہوجانے پر علی الفور زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ علی التراخی واجب ہوتی ہے یہاں تک کہ موت کے وقت گناہ گار ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کن لوگوں پر فرض ہے
ہر اس آزاد عاقل اور بالغ مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہے جو نصاب (یعنی مال کی وہ خاص مقدار جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے) کا مالک ہو اور مال کامل ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہا ہو نیز وہ مال دین یعنی قرض اور ضرورت اصلیت سے فارغ ہو اور نامی (یعنی بڑھنے والا ہو) خواہ حقیق خواہ تقدیراً اسی طرح مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔
کافر، غلام دیوانے اور نابالغ لڑکے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور نہ اس مالک نصاب پر زکوٰۃ واجب ہے جس کے نصاب پر پورا ایک سال نہ گزرا ہو، ہاں اگر کوئی شخص سال کی ابتدائی اور آخری حصوں میں مالک نصاب رہے اور درمیان مالک نصاب نہ رہے تو اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی پورے ایک سال ہی کے حکم میں ہوگا۔
قرض دار پر اس کے بقدر فرض مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں جو مال قرض سے زائد ہو اور وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ قرض زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہے جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، چنانچہ نذر، کفارات فطرہ اور ان جیسے دوسرے مطالبات جن کا تعلق صرف اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے اور کسی بندے کو ان کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب نہیں ہیں۔ ہاں ایسے قرض جن کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مگر ان کے مطالبہ وصول کرنے کا حق بندوں کو پہنچتا ہے جیسے زکوٰۃ عشر، خراج وغیرہ کہ امام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کا مطالبہ کرسکتا ہے تو یہ بھی زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہیں مگر امام وقت اور حاکم مال ظاہر میں مطالبہ کرسکتا ہے مثلاً مویشی وہ مال تجارت جو شہر میں لایا جائے یا شہر سے باہر لے جایا جائے اور نقدی لیکن وہ مال جس کی تجارت صرف شہر کے اندر اندر ہی محدود ہو اس میں حاکم کا مطالبہ اور اگر بیوی مہر کا تقاضا کرتی ہو تو اس کے مہر کے بقدر مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
بحرالرائق میں ہے کہ معتمد مسلک یہ ہے کہ فرض زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے لیے مانع وجوب ہے نیز مطلقاً قرض مانع ہے خواہ معجل ہو یا موجل، اگرچہ بیوی کا مہر موجل ہی کیوں نہ ہو جس کی مدت تاجیل طلاق یا موت پر ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مہر موجل زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب نہیں ہے کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں ہوا کرتا بخلاف مہر معجل کے کہ اس کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بعض علماء نے اس بارے میں یہ لکھا ہے کہ اگر خاوند ادائیگی مہر کا ارادہ رکھتا ہو تو مہر موجل زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس کا شمار قرض میں نہیں ہوتا۔
ضرورت اصلیہ کا مطلب
ضرورت اصلیہ سے مراد یہ چیزیں ہیں رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے خانہ داری کے اسباب سواری کی چیزیں مثلاً گھوڑا گاڑی موٹر سائیکل وغیرہ خدمت کے غلام استعمال کے ہتھیار، اہل علم کے لیے ان کی کتابیں کاریگر کے واسطے اس کے پیشہ کے اوزار وغیرہ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے کوئی مکان تجارت کی نیت سے لیا اور وہ مکان اس کی رہائش سے فارغ بھی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے اگر مکان و غلام وغیرہ اپنی ضرورت و حاجت سے فارغ ہوں اور ان کی تجارت کی نیت نہ ہو تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
کامل ملکیت
ابھی پہلے زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے یہ شرط بھی بیان کی گئی تھی کہ مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔ لہٰذا اس کامل ملکیت سے مراد یہ ہے کہ مال کا اصل مالک بھی ہو اور وہ مال اس کے قبضہ وقدرت میں بھی ہو جو مالک ملک اور قبضہ میں نہ ہو یا ملک میں ہو قبضے میں نہ ہو یا قبضہ میں ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ لہٰذا مکاتب کے کے کمائے ہوئے مال میں زکوٰۃ نہیں نہ خود مکاتب پر نہ اس کے مولیٰ پر اس لیے کہ وہ مال مکاتب کی ملکیت میں نہیں گو اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح مولیٰ کے قبضہ میں نہیں ہے گو ملک میں ہے۔
اسی طرح ضمار میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ وہ مال ملکیت میں تو ہوتا ہے مگر قبضہ میں نہیں ہوتا۔ مال ضمار اس کو کہتے ہیں جو اپنی رسائی سے باہر ہو اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں وہ مال جو جاتا رہے یعنی گم ہوجائے ،وہ مال جو جنگل میں دفن کردیا گیا ہو مگر وہ جگہ کہ جہاں اسے دفن کیا گیا تھا بھول جائے، وہ مال جو دریا میں غرق ہوگیا، وہ مال جسے کوئی شخص زبردستی چھین لے مگر اس کا کوئی گواہ نہ ہو،وہ مال جو کسی ظالم نے ڈندے کے طور لے لیا۔ وہ مال جو کسی نے بطور قرض لیا اور بعد میں قرض دار قرض کا منکر ہوگیا اور کوئی تمسک یا گواہی اس کی نہ ہو۔
پس مال ضمار کی یہ دو قسمیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی مال ہاتھ لگ جائے تو اس مال میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ہاں اگر وہ مال ہاتھ لگ جائے جو جنگل میں بلکہ گھر میں دفن کر کے اس کی جگہ بھول گیا تھا تو جب بھی وہ مال نکلے گا اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اسی طرح قرض کے اس مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی جس سے قرض دار انکار نہ کرتا ہو خواہ وہ قرض دار تونگر ہو یا مفلس اور یا اگر انکار کرتا ہو تو کوئی تمسک یا گواہی ہو یا خود قاضی یہ جانتا ہو کہ اس نے اتنا مال قرض لیا تھا لیکن اس مال میں زکوٰۃ اس تفصیل کے ساتھ واجب ہوگی کہ اگر وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں ہو تو جب نصاب کا پانچواں حصہ وصول ہوجائے تو پچھلے دنوں زکوٰۃ ادا کرے ،اگر وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں نہ ہو مثلاً گھر کے پہننے کے کپڑے فروخت کئے یا خدمت کا غلام فروخت کیا یا رہائش کا مکان فروخت کیا اور ان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ قرض رہی تو اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ بقدر نصاب وصول ہوجائے ، اگر قرض اس چیز کے بدلہ میں ہو جو مال نہیں ہے جیسے مہر، وصیت اور بدل خلع وغیرہ تو اس میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب کہ بقدر نصاب وصول ہوجائے اور اس پر پورا ایک سال گزر جائے یعنی اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ صرف اسی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی جس میں کہ وہ مال پر قابض رہا لیکن یہ حکم اسی شخص کے بارے میں ہے جو پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو اگر پہلے سے صاحب نصاب ہوگا تو یہ مال اس کے حق میں بمنزلہ مال مستفاد کے ہوگا، پہلے مال کے ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ واجب ہوگی اور ایک سال کا گزرنا شرط نہیں ہوگا۔
ادائیگی زکوٰۃ کے لیے نیت شرط ہے
ادائیگی زکوٰۃ کے لیے یہ شرط ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرے یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ ’’ میرے اوپر جس قدر مال کا دینا فرض تھا میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دیتا ہوں ‘‘ یا جس وقت اپنے مال میں سے زکوٰۃ کا حصہ نکالے اسی وقت زکوٰۃ کی نیت کرے کہ میں اس قدر جو زکوٰۃ دینے کے لیے ہے نکالتا ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں خیرات کر دے اور زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس کے ذمہ زکوٰۃ ساقط ہوجاتی ہے یعنی اس پر زکوٰۃ کا مطالبہ باقی نہیں رہتا بشرطیکہ اس نے وہ مال کسی اور واجب کی نیت سے نہ دیا ہو زکوٰۃ کو ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ مال زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اور اس کی صورت یہ کرے کہ جب سال پورا ہونے کو ہو تو کچھ دن پہلے اپنا مال دوسرے کو ہبہ کر کے اسے قابض کر دے اور اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اگرچہ اس صورت سے زکوٰۃ تو ساقط ہوجاتی ہے مگر یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے۔
اگر کسی شخص نے کوئی غلام تجارت کے لیے خریدا مگر بعد میں اس سے خدمت لینے کی نیت ہوگئی تو وہ غلام تجارت کے لیے نہیں رہے گا بلکہ خدمت ہی کے لیے ہوجائے گا اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی غلام خدمت کی نیت سے خریدا پھر بعد میں اس نے تجارت کی نیت کرلی تو وہ غلام اس وقت تک تجارت کے حکم میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ شخص اسے فروخت نہ کرے۔ فراختگی کے بعد اس کی قیمت میں زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔
نصاب کی تعریف
نصاب زکوٰۃ مال کی اس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور جس مقدار سے کم مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مثلاً اونٹ کے لیے پانچ اور پچیس وغیرہ کا عدد، بکری کے لیے چالیس اور ایک اکیس وغیرہ کا عدد اور چاندی کے لیے دو سو درہم اور سونے کے لیے بیس مثقال۔
نصاب کی قسمیں
نصاب کی دو قسمیں ہیں۔ نامی یعنی بڑھنے والا مال اور غیر نامی یعنی نہ بڑھنے والا مال پھر نامی کی دو قسمیں ہیں حقیقی اور تقدیری حقیق کا اطلاق تو تجارت کے مال اور جانور پر ہوتا ہے کیونکہ تجارت کا مال نفع سے بڑھتا ہے اور جانور بچوں کی پیدائش سے بڑھتے ہیں۔ تقدیری کا اطلاق سونے چاندی پر ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بظاہر تو نہیں بڑھتیں لیکن بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں نصاب غیر نامی کا اطلاق مکانات اور خانہ داری کے ان اسباب پر ہوتا ہے جو ضرورت اصلیہ کے علاوہ ہوں۔
نصابی اور غیر نصابی میں فرق
نصاب نامی اور غیر نامی میں فرق یہ ہے کہ نصاب نامی کے مالک پر تو زکوٰۃ فرض ہوتی ہے نیز اس کے لیے دوسرے زکوٰۃ نذر اور صدقات واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا اور اس کے لیے صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔ نصاب غیر نامی کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مگر اس کے لیے بھی زکوٰۃ نذر اور صدقہ واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا نیز اس پر بھی صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔
مشکوۃ شریف : جلد دوم : حدیث 267
ہر شخص اپنے وسائل کے حوالے سے معاملات کا تعین کرنے کا از خودذمہ داراورجواب دہ ہوگا انسان اپنا احتساب خود کر سکتا ہے اوراللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں اسلئے اللہ کی رضا کیلئے اس کے دئیے ہوئے مال سے زکوٰۃ ادا کرنے میں تامل نہ برتیں۔