روایتی پولیس کلچ
مملکت خداداد میں جس بھی سرکاری محکمے اور ادارے پر نظر دوڑائی جائے، آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ کرپشن، نااہلی، کام چوری، سائلین اور صارفین سے اچھوتوں جیسا سلوک، تاخیری حربے، غرضیکہ کسی عام شہری کو کسی سرکاری محکمے میں کام پڑ جائے تو اْس کو آٹھ آٹھ آنسو رْلایا جاتا ہے، بڑی سفارشیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر ، اور متعلقہ اہلکاروں کی مْٹھیاں گرم کرنے کے بعد بالآخر اپنے جائز کام کو ناجائز طریقے سے کروانے کی جوئے شِیر لانا پڑتی ہے۔ بطورِ خاص ایک محکمہ تو ایسا ہے جس سے لوگ سب سے زیادہ خوفزدہ نظر آتے ہیں، وہ ہے پولیس کا محکمہ۔ اس محکمے کا تصور ذہن میں لائیں تو سفاکی اور بے رحمی سے بھرے کْھردرے چہروں اور درشت لہجوں کی ہی تصویر اْبھرتی ہے۔
بلاشبہ پنجاب پولیس میں ایماندار، فرض شناس اور محنتی اہلکاروں اور افسروں کی کمی نہیں، تاہم عوام کے ہاں ان کا مجموعی تاثر کچھ مثبت نہیں ہے۔ گزشتہ دِنوں دو ایسے واقعات سامنے آئے جس نے ہمارے پولیس کلچر پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں۔ پہلا واقعہ لاہور میں ایک پولیس انسپکٹر کی اْس کے ہمسایہ نوجوان کے ہاتھوں دِن دیہاڑے ہلاکت کا ہے۔ اس افسوس ناک واقعے کا ملزم ایک مکینک ہے جس کے مطابق انسپکٹر اْس کی ہر وقت تذلیل و توہین کرتا تھا، جب برداشت کی حد ختم ہوگئی تو اْس نے طیش میں آ کر اسے گولی مار کر قتل کرنے کا انتہائی قدم اْٹھایا۔
دْوسرا واقعہ ملتان کا ہے جہاں کسی وی وی آئی پی کے رْوٹ پر موٹر سائیکل سوار شہری کو پولیس اہلکاروں نے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا۔ مذکورہ بالا واقعے کی فوٹیج وائرل ہوئی جس میں وی وی آئی موومنٹ کے لیے ٹریفک سے خالی کروائی گئی سڑک ایسی سنسان ویران دکھائی دے رہی ہے، جیسے صاحباں کی دعا کے مصداق مرزا یار کی مٹر گشتی کی خاطر ہونی چاہیے۔ اسی اثناء میں موٹر سائیکل پر سوار ایک سینئر شہری اْس سڑک پر سے گزرتا ہے تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار اْسے روک کر موٹر سائیکل سمیت گراتا ہے اور پھر اْس کی ’’خاطر مدارت‘‘ شروع کی جاتی ہے۔ کسی عینی شاہد نے پولیس گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کو کیمرہ میں قید کیسوشل میڈیا پر شیئر کر دیا۔ اس واقعہ سے موقع کی تاک میں بیٹھیسیاسی مخالفین نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا فائدہ اْٹھایا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو ٹیگ کر کے فوٹیج کو وائرل کر دیا۔ بات وزیر اعلیٰ مریم نواز تک پہنچی تو اْنہوں نے واقعہ میں ملوث پولیس اہلکار کو فوری معطل کر کے اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اْنہیں تشدد کی فوٹیج دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔پولیس کو شہریوں پر تشدد کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر پولیس والوں کی عزت ہوتی ہے تو کیا عام شہری کی کوئی عزت نہیں۔ سو انہوں نے سیاسی مخالفین کو چاروں شانے چِت کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بزرگ شہریوں کا کتنا احترام کرتی ہیں ۔ انہوں نے کتنی جلد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کروائی ہے۔
بے شک اس طرح بزرگ شہری کی فوٹیج دیکھنے کے بعد اْس سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کی اشک شوئی ہوئی ہے۔
پولیس والے کی بزرگ شہری سے کیا کوئی ذاتی دشمنی تھی جو اْس نے بزرگی کا لحاظ کیے بغیر اسے موٹر سائیکل سمیت نیچے گرا کر گھونسوں اور لاتوں سے اس کی پٹائی کی۔ بے شک اْس کا یہ اقدام اختیارات سے تجاوز کی نادر مثال تھی، مگر وہ تو حکامِ بالا کے بتائے سمجھائے گئے پروٹوکولز کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی ’’ڈیوٹی‘‘ دیانت داری سے نبھا رہا تھا۔ سوچیے، اگر بزرگ شہری اْس وی وی آئی پی موومنٹ کی راہ میں آ جاتا تو کیا تب بھی اس پولیس والے کی پیٹی نہیں اْتر جانی تھی؟اْس کے لیے تو یقیناً یہ ایک مشکل صورت حال تھی۔