ریاض یا تل ابیب : فیصلہ ٹرمپ کا
امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ریاض اور تل ابیب کو مخالف سمتوں میں دھکیل دیا ہے۔چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شینوا نے خبر دی ہے کہ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ سعودی عرب صرف انتہائی نامساعد حالات میں کسی بھی ملک کے بارے میں ایسا بیان دیتا ہے کجا یہ کہ وہ امریکہ کے بارے میں ایسا بیان دے۔ بہت عرصے سے اسرائیلی اور امریکی میڈیا سعودی عرب کو مختلف معاملات میں گھسیٹ رہا تھا۔ پھر ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے اور اس کے بعد وہ غزہ میں خوبصورت عمارتیں تعمیر کریں گے۔ اس بیان میں انہوں نے یہ مفروضہ بنانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب بھی کسی نہ کسی طرح اس منصوبے سے متفق ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے وہ پاکستان کے کسی پراپرٹی بلڈر کی طرح لگ رہے تھے۔ ٹرمپ صاحب ، کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ سمندر کے کنارے عمارتوں کی تعمیر کا ہے؟ عالمی میڈیا کے زیادہ تر ادارے مغرب میں قائم ہیں۔ وہ سب اپنے “برانڈ” کی مارکیٹنگ کیلئے بہت ہی عجیب اور مضحکہ خیز نعرے استعمال کرتے ہیں ،بلومبرگ البتہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس کا نعرہ ہے “سیاق و سباق سب کچھ بدل دیتا ہے” (Context Changes Everything )۔ صدر ڈونالڈ جے ٹرمپ کو اس نعرے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ اس نعرے کی روشنی میں وہ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے دورے کے لئے وہ ریاض جائیں گے یا انہیں کوئی اور منزل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کا سیاق و سباق واضح کرنے کیلئے میں آپ کو یاد دلا دوں کہ 2017 میں یہ ٹرمپ کی بڑی کامیابی تھی کہ وہ اپنی پہلی مدت صدارت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب جا پائے تھے۔ سعودی عرب ان کے پیشرو سے ناخوش تھا اور ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سب معاملات ٹھیک کر دیں گے۔ اس وعدے پر انہیں ریاض میں آنے کی دعوت ملی تھی۔ریاض کے بعد وہ اس وقت سیدھے تل ابیب چلے گئے تھے۔ اسرائیلی سیاست دانوں اور لابیسٹوں نے اس پر کھل کر اعتراض کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تل ابیب ٹرمپ کی اولین ترجیح ہوتی یا ہونی چاہیے تھی۔ اس بار، اسرائیلی انتہا پسندوں نے یہ موقع نہیں چھوڑا۔ بنجمن نیتن یاہو دنیا کے پہلے لیڈر تھے جو سیدھے وائٹ ہاؤس جا پہنچے۔ ابھی تو امریکا کی کابینہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی تھی اور حکومتی تبدیلیاں ابتدائی مراحل میں ہی تھیں کہ نیتن یاہو واشنگٹن میں وارد ہو گئے۔نہ صرف سفارتی، یہ دورہ اخلاقی قدروں کے بھی خلاف تھالیکن وہ نیتن یاہو ہی کیا جو اخلاقیات یا انسانیت کا خیال کرے۔ ٹرمپ خود پسند ہیں اور انہیں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا جنون ہے۔نیتن یاہو ان کی یہ کمزوری خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کمزوریوں سے کھیلنے میں مہارت حاصل ہے۔ وہ اسرائیل کی حکومت ایک کمزور الائنس کی مدد سے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکامی کو بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال کیا۔ ایسے گھاگ سیاستدان کیلئے ٹرمپ کو رام کرنا بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ جب صحافیوں کی جانب سے یہ پوچھا گیا کہ جنگ بندی کے معاہدے کا مسودہ بائیڈن انتظامیہ نے تیار کیا تھا، تو اس نے کھلم کھلا جھوٹ بولا کہ اس کا سہرا ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ بس اس کے بعد تو نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جوڑی نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ہر اس شخص کو دھمکیاں دیں جس کے بارے میں کوئی بھی سوال کیا گیا۔ خواہ وہ عرب ہوں یا یورپین، کوئی بھی ان دونوں کے زبانی حملوں سے نہ بچ سکا۔ٹرمپ نے غزہ کے بارے میں جو کچھ کہا وہ نیا نہیں۔یہ منصوبہ اسرائیلی لابیسٹ اور سیاستدان طویل عرصے سے دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ اسرائیلی انتہا پسندوں کی سفاکیت اس بات سے عیاں ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ غزہ کے آخری شہری کو یا تو ہلاک کرنے یا کہیں دور پھینکے جانے کے بعد غزہ “ریویرا” بن جائے گا۔ “ریویرا” یورپ میں ساحل سمندر کے ساتھ ایک حسین پٹی کو کہتے ہیں۔ لیکن مشرق وسطیٰ کیلئے یہ لفظ ایک خطرناک اصطلاح ہے۔ شروع میں بیروت کو ریویرا کہتے تھے۔ گزشتہ 50 سالوں میں کرہ ارض پر سانس لینے والے ہر قسم کے دہشت گردوں نے اس شہر کو پامال کیا ہے۔ امریکی لبنان کو مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ بھی کہتے تھے۔ اب یہ ملک تباہ حال ہے، اس کا دیوالیہ نکل گیا ہے اور یہاں خون بہہ رہا ہے۔ یہ خوبصورت تشبیہات ایک زہریلی تلوار کے اوپر چمکتی ہوئی میان کی طرح ہیں۔ ٹرمپ کو غزہ کے اس ریویرا میں لے جانے کے بعد نیتن یاہو نے انہیں گویا کسی کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔مشرق وسطیٰ کرہ عرض پہ وہ واحد جگہ ہے جہاں کوئی ٹرمپ کا خیر مقدم کر کے عالمی بدنامی مول لینے پہ تیار ہے۔ یورپ ہو یا کینیڈا، چین ہو یا روس، کوئی بھی ٹرمپ کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ لے دے کہ انڈیا ہی ہے جو ٹرمپ کی خوشامد میں مگن ہے۔ لیکن انڈیا مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ کے چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب ہی مشرق وسطیٰ ہے۔اگر سعودی عرب کو پسند نہیں ہے تو ٹرمپ کے لیے خطے میں کھڑے ہونے کی کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ اور سعودی عرب نے بات واضح کر دی ہے۔ وہ فلسطین کو اسرائیل یا امریکہ کے حوالے نہیں کرے گا۔ ٹرمپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سعودی عرب بدل رہا ہے۔ اب وہ امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اور یہ امریکہ کیلئے ایک بڑا نقصان ہو گا۔ بائیڈن نے پہلی اور آخری بار 2022 میں امریکی صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ریاض کا دورہ کیا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے عہد کیا تھا کہ وہ وہ “بلینک چیک” (Blank Check ) واپس لیں گے جو ٹرمپ نے سعودی عرب کو دیا تھا۔ ان کی صدارت کے چار سالوں کے دوران ، سعودی عرب کی دولت اور کاروبار بغیر کسی امریکی “بلینک چیک” کے کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ بائیڈن کے دورے کے چند ماہ بعد سعودی عرب نے اس وقت تیسری بار چین کے صدر بننے والے شی جن پنگ کے لیے “جامنی قالین” بچھایا۔ان کے استقبال کے لیے 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ فضا میں جہازوں نے چین کے پرچم والے رنگ چھوڑے۔ہوائی اڈے سے الیمامہ پیلس تک کی سڑکوں پر چینی اور سعودی پرچم نصب تھے اور مہمان کے استقبال کے لئے چمکدار بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ شاید ہی کبھی کسی امریکی صدر کا سعودی عرب میں ایسا استقبال کیا گیا ہو گا۔ اس کے بعد مملکت اپنے وژن 2030 کو لے کے آگے بڑھ رہی تھی اور چین اس وژن میں فٹ تھا۔ اگر ٹرمپ اس طرح کے غیر معقول بیان جاری رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ریاض کے بجائے تل ابیب پر اتریں اور وہاں نیتن یاہو کے ساتھ سفارتی تنہائی کے مزے لیں۔غزہ میں ریویرا تو خیر وہ نہ بنا سکیں لیکن مشرق وسطیٰ ان کے ہاتھ سے ضرور نکل جائے گا۔