سعودی عرب میں فلسطینی ریاست، صیہونی سازش بے نقاب
اونٹ کو خیمے میں گھسنے دو گے تو پھر وہ خیمے پر قبضہ ہی کرے گا۔ بات بڑھتے بڑھتے کہاں تک آ گئی ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی اس مذموم خواہش کا اظہار کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست سعودی عرب میں بننی چاہیے۔اس بیان پر مسلمان ملکوں کے سربراہان تلملا اٹھے ہیں اور سب نے بیک زبان اس تجویز کی مذمت کی ہے۔ ابھی ایک دو ہفتے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں نیتن یاہو سے ملاقات کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا،غزہ کو خالی کروا کے اسے قبضے میں لیں گے اور اسے از سر نو تعمیر کریں گے جبکہ فلسطینیوں کو اردن، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں بسائیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بیان سے شہ پا کر یہ جسارت کی ہے کہ فلسطینی ریاست ہی سعودی عرب میں قائم کی جائے گی۔ گویا اب یہودیوں اور امریکیوں کی نظریں اسلام کی سب سے مقدس سرزمین سعودی عرب پر ہیں۔ یہ ایسی سوچ ہے جس کی پوری طاقت اور شدت کے ساتھ بیخ کنی اور مذمت نہ کی گئی تو امریکہ اپنے بغل بچے اسرائیل کے ساتھ مل کر آگے ہی بڑھتا جائے گا۔ اسلامی ممالک کو مان لینا چاہیے کہ ان کی کمزوری، نااتفاقی اور اپنے مفادات کے لئے امریکہ کا آلہء کار بننے کی روایت نے آج بات یہاں تک پہنچا دی ہے۔ سعودی عرب پر اس طرح کی آنکھ رکھنا پہلے کبھی آشکار نہیں ہوا تھا لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ بیت المقدس کو ختم کرنے کے بعد اب قبلہء اول پر نظریں ہیں۔ ذرا سوچئے یہ کتنا بھیانک منصوبہ ہے، اگر فلسطینی ریاست سعودی عرب میں قائم ہو جاتی ہے تو وہ جنگ جو صیہونیوں کے خلاف فلسطینی غزہ میں لڑ رہے ہیں، حجاز مقدس میں آ جائے گی، یہ جنگ تو ختم نہیں ہو گی کیونکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان نفرت کی جو خلیج حائل ہو چکی ہے وہ کسی دوسری جگہ ریاست بنانے سے ختم نہیں ہو سکتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ خالی کرانے کا جو بیان دیا تھا۔ اس پر پوری دنیا نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا، لیکن اب اس سے بھی آگے کا منصوبہ آشکار ہوا ہے۔ گویا اسرائیل اور امریکہ یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔پورے فلسطین پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا جائے اور سعودی عرب کو ان کے لئے علیحدہ ریاست بنانے کی جگہ دینے پر مجبور کرکے اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل کیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کو خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے۔ اسے اگر پہلے کی طرح غیر سنجیدگی سے لیا گیا اور عرب سربراہی یا او آئی سی کا اجلاس بلا کر روائتی قرارداد منظور کی گئی تو مسلم دنیا کے حکمران سوچ لیں، ان کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ جب تک ایک مضبوط اور عملی لائحہ عمل بنا کر امریکہ کو اپنے بغل بچے کی سرپرستی سے نہیں روکا جاتا، یہودیوں کا وہ ایجنڈا جو انہوں نے ایک صدی پہلے سے بنا رکھا ہے، عملی جامہ اختیار کرلے گا۔ اس ایجنڈا میں اسلام کو مغلوب اور یہودیت کو غالب کرنا ہے، جس کے لئے اب سازشی جال بڑی دور تک بچھایا جا چکا ہے۔
1967ء تک فلسطینی ریاست اپنے پورے جغرافیے اور حدود اربع کے تحت موجود تھی۔ اسرائیل اور فلسطین میں باقاعدہ ایک تسلیم شدہ سرحد تھی جسے اقوام متحدہ میں بھی مانا گیا تھا۔ القدس فلسطین کا دارالحکومت اس وقت بھی تھا اور اب بھی ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے خطے میں ہمیشہ کشیدہ صورت حال رہی۔ جنگ وقتال کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی شہیدہوتے رہے۔ اسرائیل ایک تو غاصبانہ ریاست ہے دوسرا المیہ یہ ہے وہ اپنے قبضے کو توسیع دینا چاہتا ہے، جس کے لئے اسے امریکہ کی ہمیشہ سے مدد حاصل رہی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نے فلسطینی علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ کی پٹی کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا امریکی و صیہونی منصوبہ بھی اسی لئے بنایا گیا کہ ان تباہ شدہ علاقوں سے فلسطینیوں کا انخلاء کرکے اس پر قبضہ کرلیا جائے، لیکن فلسطینی عوام کسی قیمت پر اپنا علاقہ اور گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں، چاہے وہ کھنڈرات ہی کیوں نہ بن گئے ہوں۔ اب بلی تھیلے سے بالکل باہر آ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آتے ہی بڑی تیزی سے فلسطینی ریاست کے اس تاریخی تصور کو ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، جو بیت المقدس کی کی سرزمین پر آباد ہے۔ مہذب دنیا کی حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں ایک ریاست پر ناجائز قبضہ کرکے صیہونی ریاست آباد کی جائے اور پھر ایک سپرپاور اپنے تمام تر اسلحے اور بارود کے زور پر اس ریاست کے مخالفین پر زندگی تنگ کر دے، لیکن ایسا فلسطین میں برسہابرس سے ہو رہا ہے۔ مہذب دنیا کے ماتھے پر اگر کوئی سب سے بڑا کلنک کا داغ ہے تو وہ اسرائیل اور امریکہ کی فلسطینیوں پر بربریت ہے جس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ فلسطین کے مسئلے نے اس حقیقت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے کہ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور دنیا کے نظام کو ایک قاعدے قانون کے تحت چلانے کے لئے بنائے جانے والے ادارے، سب دھوکہ ہیں۔ امریکہ کے آگے ان کی حیثیت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں۔ وہ جب چاہے قراردادوں کو ویٹو کر دے، جب چاہے ایسی ڈکٹیشن دے جو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کی مکمل حمایت پر مجبور کرتی ہو۔
اسرائیلی وزیراعظم کے بیان پر اگرچہ بھرپور مذمتی ردعمل آیا ہے۔ اسلامی ممالک نے اس کے خلاف مکمل یکجہتی بھی ظاہر کی ہے کیا صرف اتنا ہی کافی ہوگا؟ کیا اسلامی ممالک کو صرف اپنی یکجہتی تک محدود رہنا چاہیے یا دنیا کے بڑے ممالک تک بھی اس معاملے کی شدت کو پہنچانا ضروری ہے۔ فلسطینیوں کو غزہ اور بیت المقدس سے نکال کر سعودی عرب میں بسانے کی تجویز ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جو اسلام کے خلاف کی جانے والی ہے۔ اگر سعودی عرب میں بدامنی پھیل جاتی ہے اور فلسطینیوں پر دہشت گردی یا مداخلت کا الزام لگا کر اسرائیل جارحیت کرتا ہے تو عالم اسلام کا یہ مرکز بھی انتشار کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ کویت، عراق، شام، مصر اور اردن کو تسخیر کرنے کے بعد اب صیہونیوں اور امریکیوں کا ہدف سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب پر ان کی نگاہ اس لئے نہیں جاتی تھی کہ یہاں عالم اسلام کے مراکز ہیں جن کے لئے ہر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہے۔ اب غالباً سازشی منصوبے کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لئے راہ یہ نکالی گئی ہے۔سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی مزاحمت کو بہانہ بنا کر اس مقدس سرزمین کو بھی یورش اور جنگ و جدل کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ عالمِ اسلام کی طرف سے اسرائیل کے وزیراعظم کو تو سخت مذمتی جواب دیا گیا ہے۔ تاہم اصل جواب امریکہ کو دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہمیشہ دباؤ میں رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ کھل کے اسرائیل کی بھی مذمت بھی نہیں کر سکے۔ خود سعودی عرب کی طرف سے ماضی قریب میں اسرائیل کے لئے نرم گوشے کی اطلاعات آتی رہی ہیں، لیکن اب سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنانے کا شوشہ چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل نے اپنے عزائم کو ظاہر کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کو بدقسمتی سے اسلامی ممالک نے اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑرکھا، ان کی کھلی حمایت کی جاتی اور اسرائیل کی جارحیت پر متفقہ ردعمل ظاہر کیا جاتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔