Read Urdu Columns Online

Siyasi Dabao Aur Jamhoriat Ke Samrat

نکتہ وروں میں حل طلب سوال یہ تھا کیا موجودہ سیٹ اپ چل رہا ہے یا جمود کا شکار ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا ملک آگے بڑھ رہا ہے، معیشت میں کوئی بہتری آ رہی ہے، گورننس میں تبدیلی کے آثار ہیں یا مکھی پر مکھی مارنے کا روایتی سلسلہ جاری ہے؟ شرکاء میں سے بعض کا اعتراض تو یہ تھا جب اس سیٹ اپ کی بنیاد ہی غلط ہے تو اس کی کارکردگی پر بات کیسے کی جا سکتی ہے۔ لوگ تو آج بھی اس حکومتی سیٹ اپ کو فارم47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں، اُن کے خیال میں جب عوام کا مینڈیٹ ہی اسے حاصل نہیں تو ایسے سوالات بے معنی ہیں کہ حکومت یا حکومتی سیٹ اپ چل رہا ہے یا جمود کا شکار ہے تاہم سوال کرنے والوں نے وضاحت کی،اس وقت موضوع یہ نہیں کہ حکومتی سیٹ اپ کیسے بنا، موضوع یہ ہے کہ جو حکومتیں کام کر رہی ہیں وہ کچھ ڈلیور بھی کر رہی ہیں یا نہیں۔اس پر ایک رائے یہ آئی کہ جس بات کو ہم برائی سمجھ رہے ہیں وہی اس سیٹ اپ کی خوبی بنی ہوئی ہے۔ وضاحت یہ کی گئی کہ وفاقی اور چاروں صوبوں کی حکومتوں پر ایک دباؤ ہے کہ وہ کچھ کر کے دکھائیں۔گویا انہیں یہ ثابت کرنا ہے وہ کم از کم نااہل یا نکمی نہیں،بلکہ عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہیں۔دلیل یہ دی گئی کہ بہت سی چیزوں میں بہتری نظر آ رہی ہے۔پالیسی ریٹ 22فیصد سے کم ہو کر 12فیصد پر آ گیا ہے۔مہنگائی کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔ ترقیاتی منصوبے بھی بن رہے ہیں۔صوبائی حکومتوں میں کارکردگی دکھانے کے حوالے سے ایک صحت مند مقابلہ بھی نظر آ رہا ہے، حتیٰ کہ اس موضوع پر سندھ اور پنجاب میں باقاعدہ ٹھن گئی ہے کہ مریم نواز کی کارکردگی بہتر ہے یا مراد علی شاہ کی۔اس نکتے پر سب شرکاء متفق تھے کہ حکومت پر دباؤ ہو تو وہ زیادہ سرگرمی سے کام کرتی ہے۔ایک دباؤ تو اپوزیشن کا ہوتا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر جاری رہتا ہے تاہم موجودہ سیٹ اپ کو دوہرے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک طرف پارلیمنٹ کے اندر شدید مزاحمت موجود ہے، دوسری طرف یہ الزام ہے کہ وہ عوام کا مینڈیٹ چرا کے بیٹھے ہیں یہ دباؤ اُس دباؤ سے کہیں زیادہ ہے جو اسمبلیوں کے اندر موجود ہے۔اس دباؤ کی وجہ سے وزیراعظم شہباز شریف ہوں یا چاروں وزرائے اعلیٰ اِس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کچھ ایسا کریں کہ عوام میں اُن کی ساکھ بحال ہو جائے۔ ایک دانشور کا خیال تھا اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہے کہ آٹھ فروری کے بعد اُس نے جو نظام ڈیزائن کیا وہ سر توڑکوشش کر رہا ہے عوام کسی طرح مطمئن ہو جائیں۔اس طرح یہ اُمید بھی باقی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ آٹھ فروری2024ء کے انتخابی نتائج کی متنازعہ حیثیت کو بھول جائیں گے اور حکومتوں کی کارکردگی انہیں یہ احساس دلانے میں کامیاب رہے گی جو کچھ بھی ہوا وہ ملک کے حق میں سازگار تھا۔

جب ہم ایسی باتیں سنتے ہیں تو کئی چیزیں ذہن میں خوامخواہ گردش کرنے لگتی ہیں مثلاً اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر سب سے بڑ دباؤ عمران خان کا ہے۔ اڈیالہ جیل سے عمران خان کے چھینک مارنے کی خبر بھی آتی ہے تو ہلچل مچ جاتی ہے۔آج کل اُس خط کا بڑا شہرہ ہے جو عمران نے چیف آف آرمی سٹاف سید عاصم منیر کے نام لکھا ہے۔ ویسے تو یہ خط ایک معمہ بن گیا ہے کیونکہ سکیورٹی ذرائع نے ایسے کسی خط کی موجودگی سے انکار کیا ہے تاہم اس کا ذکر اتنا ہو رہا ہے کہ جیسے اس خط میں ملکی حالات کی بہتری کا کوئی خاص فارمولا موجود ہے۔مسلم لیگی حلقے تنقید کر رہے ہیں،بلکہ تمسخر اُڑا رہے ہیں کہ عمران خان کے اس خط کی اہمیت ہی نہیں جواب کیا آئے گا؟ عمران خان کے مبینہ خط کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں، اُن کے مطابق وہ آرمی چیف سے درخواست کر رہے ہیں کہ فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو ختم کیا جائے،کیونکہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے جبکہ حکومتی حلقوں اور عسکری ذرائع کا دعویٰ ہے اس وقت عوام اور فوج کے درمیان مثالی ہم آہنگی موجود ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ ایک طرح کی کھینچا تانی ہے جو اس وقت قومی منظر نامے پر جاری ہے۔سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں محاذ آرائی کا فائدہ ہمیشہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔حکومت اس لئے نقصان ہی میں رہتی ہے کہ اُس کی توجہ بٹ جاتی ہے اور پابندی کی وجہ سے اُس کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ایک صاحب نے بہت دلچسپ سوال کیا،عمران خان کا جیل میں رہنما حکومت کے لئے فائدہ مند ہے یا جیل سے باہر آنا اس پر بھی بحث شروع ہو گئی۔ایک بہت زبردست نقطہئ نظر یہ سامنے آیا کہ عمران خان جیل میں اکیلے بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پلاننگ کرتے رہتے ہیں۔اُن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے باہر سیاسی استحکام نہ آ سکے۔اگر انہیں آزاد کر دیا جائے تو دیگر مصروفیات میں پڑ کر اُن کا فوکس شاید اُن باتوں پر نہ رہے جن پر آج ہے مثلاً اُن کی فاسٹ باؤلنگ کا اندازہ دیکھئے۔ انہوں نے پہلے اپنی جماعت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دی۔اپنے دو سخت مطالبات بھی رکھ دیئے جنہیں پورا کرنا بظاہر موجودہ حکومت کے بس میں نہیں تھا۔عین توقع کے مطابق جب یہی ہوا تو انہوں نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔تھوڑے دن گزرے تو یہ خبر سامنے آ گئی، عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا ہے جس کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔گویا ایک مسلسل محاذ آرائی ہے، جس نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس دباؤ کی صورت حال میں اس سیٹ اَپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ عوام کو کچھ اچھا کر کے دکھائے۔

اس ساری فضاء میں پنجاب بہت آگے جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے صوبے میں ایک تحرک پیدا کر رکھا ہے، روزانہ کی بنیاد پر اُن کے اقدامات اور فیصلے پنجاب حکومت کی ساکھ کو بہتر بنا رہے ہیں۔یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ اُن کی صوبے میں گرفت بہت مضبوط ہو چکی ہے۔بیورو کریسی میں کارکردگی دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جبکہ پولیس افسر بھی خاصے چوکنے نظر آتے ہیں۔تجاوزات کے خلاف آپریشن کا حکم دے کر جو بڑا کام کیا ہے اور جس طرح اس حکم کے بعد پنجاب بھر میں مہم جاری ہے اُس کی وجہ سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے مریم نواز جو کہتی ہیں اُس پر عمل بھی کراتی ہیں۔مریم نوازکا بطور وزیراعلیٰ متحرک رہنا صوبے کے حق میں ہے۔میرا خیال ہے اُن پر ایک دباؤ تو یہی ہے کہ مخالفین کے اعتراضات کا کارکردگی سے جواب دیا جائے۔ایک دوسرا دباؤ اس احساس کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ا پنے والد نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں اور پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں جسے اپنے نام کی لاج بھی رکھنی ہے اور اپنے والد کے نام کی بھی۔ چند روز پہلے نوازشریف نے ارکان اسمبلی سے ملاقات کرتے ہوئے مریم نواز کی جس طرح تعریف کی وہ ایک باپ کی طرف سے تعریف تو تھی ہی تاہم پنجاب میں گورننس کا گہرا تجربہ رکھنے والے نواز شریف کے سامنے وہ حقائق بھی ہیں جومریم نواز کے ایک اچھے وزیراعلیٰ ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا دباؤ ہمیشہ اچھے نتائج کو جنم دیتا ہے اور اِس وقت یہی دباؤ حکمرانوں کو چوکس و بیدار کئے ہوئے ہے۔

Check Also

Read Urdu Columns Online

Lahore Mein Gharonda Ki Aik Khubsurat Sham

لاہور میں گھروندہ کی ایک خوبصورت شام لاہور میں تقریبات کی بہار آئی ہوئی ہے۔ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *