طیب اردوان سے طاقتوروں کو مات دینا سیکھیں
ترکیہ کے صدر طیب اردوان وطن عزیز میں دو روزہ دورے پر آئے، تجارت،خزانہ، دفاع، سائنس اور ٹیکنالوجی، توانائی، اطلاعات و نشریات، تعلیم، صحت، غذائی تحفظ، آبی وسائل، مذہبی امور سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور اشتراک کار کے فروغ کے لئے 24 معاہدے کیے، پروٹوکولز اور مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے ، باہمی تجارت کا حجم 5ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ تعلقات سٹریٹجک شراکت میں تبدیل کرنیکا بھی فیصلہ ہوا۔آرمی چیف سے بھی مختصر مگر خوشگوار ملاقات ہوئی۔ پھر پاکستان نے ترک بحری جہازوں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے ، جس سے ان کی دفاعی شراکت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد خوشگوار یاد کے ساتھ وہ واپس چلے گئے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ بھارت اور امریکا جب اپنی سمت کا تعین کر رہے ہیں، میل جول کر رہے ہیں تو یہ یقیناً پاکستان سمیت کئی ممالک کے لیے اہم اور تشویشناک ہے۔ واشنگٹن اور دہلی بھی ترکیہ کے پاکستان کی طرف جھکائو کو تشویشناک نظر سے دیکھ رہے ہیں،،، کیوں کہ اس سے پہلے جنوری میں، دونوں ممالک نے مشرقی بحیرہ روم میں بحری مشقیں بھی کیں، جن سے دونوں کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کا اظہار ہوتا ہے۔خیر یہ چیزیں خطے میں ’’توازن‘‘ قائم کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آپ کو اپنا جھکائو شو آف کرنا پڑتا ہے، ایک ریاست کو دوسری ریاست کے سامنے اپنے آپ کو مضبوط دکھانے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اس حوالے سے پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں تو مجھے علم نہیں مگر ترک صدر اس پوری علاقائی صورتحال کو کیش کروانا بخوبی جانتے ہیں۔ خیر آج ہم بات کریں گے کہ ترک صدر طیب اردوان نے کیسے اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے دھکیل کر خود آگے آئے اور پھر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شکست دی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ ترک صدر نے سب سے پہلے کام کیا، معیشت کو مضبوط کیا۔اپنی قوم کی آئی ایم ایف سے جان چھڑوائی۔ تب کہیں اْنہوں نے ’’بڑوں‘‘ سے پنگے لینا شروع کیے۔ یعنی 2003ء میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اْس وقت ترکی کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے۔ یہ وہی طیب اردگان ہیں جس نے 2001 میں اپنی سیاسی جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ بنائی اور 2002، 2007 اور 2011 کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ طیب اردگان 2003 سے 2014 تک مسلسل ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے اب تک ترکی کے 3مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ اتنے کم عرصے میں کوئی ’’سلطان ‘‘کیسے بن سکتا ہے؟یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے سیکھنے کی بات ہے؟ کوئی کیوں کر طیب اردگان کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور بیچ سڑک میں آکر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ طیب اردگان نے ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو بلند کرنے کے لیے کام کیا، امریکا و یورپ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی۔جبکہ یہاں کے حکمران برابری تو دور کی بات باڈی لینگوئج ہی معذرت کے ساتھ لیٹنے والی ہوتی ہے…جس سے عام تاثر یہ ملتاہے کہ یہ سب ’’پرچی‘‘ والے حکمران ہیں۔ خیر اگر مغربی ممالک نے ترکی کی معیشت کو دبائو میں لانے کے لیے اْس پر معاشی پابندیاں سخت کردیں تو اْس نے اس کے متبادل ممالک سے رابطے بڑھا کر اپنے ملک کی معیشت کو نہ صرف بچایا بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد بھی کروایا۔ جبکہ یہاں پاکستان کے’’ سلطانوں‘‘ کو تین تین دفعہ اقتدار میںآنے کا موقع ملا مگر بدقسمتی سے میرے ملک کی معیشت کو انہوں نے نچوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے ملک میں ایلیٹ کلاس نے فارن اکائونٹس بھرے اور ملک پر 200ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا دیا۔جبکہ اس کے برعکس اردگان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا، جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں جی20- کے کلب میں شامل ہوگیا۔ 10 سال پہلے ترکی میں فی فرد آمدن 3500 ڈالر سالانہ تھی جو2023 میں بڑھ کر 13 ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ میرے ملک میں اوسطاََ ہر فرد کی روزانہ آمدن 2ڈالر اور سالانہ آمدن 700ڈالر سے بھی کم ہوگئی جبکہ میرے ملک کے امیر سیاستدانوں نے آف شور کمپنیاں بنا بنا کر اپنی روزانہ کی آمدن کروڑوں روپے کر لی۔ ترکی میں تعلیم اور صحت کا بجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ ہے، جبکہ استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کے برابر ہے۔یہاں سالہا سال سے صحت و تعلیم کے بجٹ کو محض 2فیصد پر بریک لگا دی گئی ہے۔ ترکی میں 35 ہزار ٹیکنالوجی لیب بنائی گئی ہیں جہاں نوجوان تربیت حاصل کرتے ہیں، یہاں ایک لیب بنانے میںاْتنا خرچ نہیں ہوتا جتنا اْس کی تشہیر پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اردگان نے 47 ارب لیراکا بجٹ خسارہ پورا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ جون 2017میں بدنام زمانہ ورلڈ بینک کے قرضے کی 300 ملین ڈالر کی آخری قسط بھی ادا کردی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ترکی نے ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔ مزید برآں ملکی خزانے میں 100 ارب ڈالر کا اضافہ کیا، جبکہ اس دوران بڑے بڑے یورپی ممالک اور امریکا جیسے ملک قرضوں، سود اور افلاس کی وادی میں حیران و سرگرداں ہیں۔جبکہ میرے وطن عزیز میں 1000ارب خسارے کا بجٹ ہر سال پیش کیا جاتا ہے۔ اور قرضے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ پرانی ادائیگیاں کرنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑتے ہیں اور نئے قرضوں کے لیے مزید سڑکیں عمارتیں اور رہے سہے منافع بخش پراجیکٹس کو گروی رکھوانا پڑتا ہے۔ اور اس بار تو آئی ایم ایف نے ناک کی لکیریں نکلوا دی ہیں مگر مجال ہے قرض ملا ہو۔ بہرکیف ہمارے سیاستدانوں کو خاص طور پر حکمرانوں کو طیب اردگان سے سبق سیکھنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔وہ کبھی الیکشن سے نہیں بھاگا، گزشتہ سال انہی دنوں ترکی میں زلزلے نے ہر طرف تباہی مچا دی تھی، جبکہ الیکشن سر پر تھے، مگر مجال ہے کہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے یا خود طیب اردگان نے الیکشن آگے کروانے کی بات کی ہو۔ حالانکہ جب زلزلہ آیا تو اْس وقت آفت زدہ علاقوں میں مہنگائی 85فیصد تک جا پہنچی تھی ان حالات میں ان علاقوں سے ریکارڈ ووٹ کی توقع عبث تھی، جو اردوان کیلئے اپ سیٹ کا باعث بن سکتی تھی۔ لیکن پھر بھی الیکشن ہوئے، اور سب نے نتائج کو بھی تسلیم کیا۔ کوئی سیاستدان عدالتوں کے باہر کھڑا نظر نہیں آیا۔ لہٰذامیرے خیال میں ہمارے سیاستدان اگر طیب اردوان سے کچھ سیکھ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، کیوں کہ اگر یہ بھی سب سے پہلے ملک کا سوچیں ادارے مضبوط کریں، خود کو مضبوط کریں اور عوام کے لیے کچھ کریں تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ملک میں کسی کی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے۔ لہٰذاہمارے سیاستدانوں کو بھی ایسی لازوال عوامی محبت کی آس صرف تب ہی رکھی جا سکتی ہے جب اپنا کردار بھی اس عظیم رہنما جیسا ہی ہو ورنہ ہمارے سیاستدان ’’سلطان‘‘ بننے کے بجائے کہیں صدام حسین اور معمر قذافی جیسے انجام کو پہنچ جاتے ہیں