Read Urdu Columns Online

Traffic Jam Aur Awain Adami

ٹریفک جام اور ’ایویں‘ آدمی 

مرزا اسد اللہ غالب کو مجنوں پہ سنگ اٹھاتے  ہی سر یاد آیا تھا۔ کرکٹ سیریز کا سُن کر قذافی سٹیڈیم سے دس کلومیٹر دائرے میں بسنے والے ہر لاہوری کو ٹریفک جام کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔ خاص طور پر جب متاثرہ علاقے کا رہائشی ذرا ایویں قسم کا آدمی ہو۔ ’ایویں‘ آدمی وہ ہے جو کسی امیر، وزیر یا مشیر کا  کزن ہو نہ شکل سے ’ڈشکرا‘ لگے۔ سرکاری دفاتر میں  اُس شخص کو کوئی پرانا ہمکار یا گاؤں محلے کا جانا پہچانا چہرہ کبھی دکھائی نہیں دیا۔ دستاویزات پر مہر لگوانی پڑے تو کوئی تصدیق کنندہ نہیں ملتا۔ بجلی کے بِل کی درستی یا پاسپورٹ کے بروقت اجرا کے لیے بھی اُسے کسی نہ کسی کی  بشریت کا تقاضا پورا کرنا پڑتا ہے۔ سائبر کرائم کے ’پیکا ایکٹ‘ مجریہ  2025 ء سے بچنے کی خاطر کہوں گا کہ بشریت کے تقاضے والا یہ بیان خلافِ حقیقت ہو سکتا ہے مگر خود ایویں آدمی کا اپنے بارے میں حتمی تاثر یہی ہے۔ 

مثال کے طور پر پاسپورٹ بنوانے  میں جو پیدائشی خوف میرے دل میں ہمیشہ رہا اُس کی جڑیں مغلوں کے پبلک پرائیویٹ سسٹم یا منصب داری نظام تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر الہ آباد یونیورسٹی میں سیاسیات کے اولین صدر شعبہ پروفیسر بینی پرشاد کی ریسرچ کا سہارا لوں تو یہ سلسلہ قدیم ہندوستان کے نظامِ حکومت سے جاملے گا۔ تاریخی حقائق جو بھی ہوں: آئندہ ٹریفک جام کے خطرے کے پیش ِ نظر مجھ پر اُسی شام سے تذبذب طاری ہے جب نو تزئین شدہ اسٹیڈیم کے افتتاح کا گھڑمس مچا۔ گویا وہی ذہنی کیفیت جس سے نئی صدی شروع ہونے سے بیس سال پہلے اپنا اولین پاسپورٹ حاصل کرنے  کے لیے دوچار ہونا پڑا۔ ٹریفک جام میں یا د آیا کہ بطور لیکچرر غیر ملکی تعلیم کے چاؤ میں مسلم ٹاؤن میں ’نہر والے پل‘ کا رخ کرتے ہوئے ’ایویں‘ آدمی نے اپنی ’ایویں ایت‘ کم کرنے کے لیے کچھ آرائشی اقدامات بھی کیے تھے۔ 

  ریکارڈ کی درستی کروں تو بنیادی لباس بخدا میرا ذاتی تھا۔ پھر بھی اصحابِ صفہ کی پیروی میں ہمارے ’کمیون‘ کے ایک رکن چوہدری اقبال آف ظفر وال (قامی تلفظ ’ڈفر وال‘) نے فراخدلی سے اپنی ریشمی ٹائی یہ کہہ کر پیش کر دی کہ تمہارے گہرے نیلے سوٹ پر خوب سجے گی۔ چودھری کا اندازہ ٹھیک نکلا کیونکہ پاسپورٹ آفس کے گیٹ کیپر نے مجھے بھی ’اک قسم دا افسر‘ سمجھ کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر امیگریشن سے ملوادیا تھا۔ صاحب میرے کوائف اور اسکالرشپ کی تحریری پیشکش دیکھ کر خوش ہوئے ”اہا، ٹریننگ پر جا رہے ہیں۔ بڑا اچھا ہے، بڑا اچھا ہے۔“  مَیں ’بڑا اچھا‘ کی گونج سے سنبھلا نہیں تھا کہ چائے آگئی۔ پیالی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بلاقیمت گریٹس پاسپورٹ مل گیا۔

اُس جادوئی صبح کو مجھے نہر کنارے پاسپورٹ درخواست گزاروں کی گھات میں ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے نیم خواندہ ایجنٹ بالکل برے نہیں لگے تھے۔ یہ خیال بھی نہ آیا کہ برٹش کونسل سے تعارفی خط اور (اوپن فارن کرنسی پر دیرینہ پابندی کے سبب) اسٹیٹ بینک سے کُل ملاکر تیس ڈالر کا زادِ سفر لینے کے مراحل ابھی باقی ہیں۔ عبرت کا منظر دکھا نے والے کہہ رہے تھے  کہ ”ا سکالر شپ پر جانے والوں کو تو کئی بار ہوائی جہاز میں بٹھا کر نیچے اتار لیتے ہیں۔ یہ پتا نہ چلنے دینا کہ تم جنرل ضیا کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو تاحال اچھا سمجھتے ہو۔“ اِس کے بر عکس ”آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا“ یہ مسلسل تسلی دینے والے واحد سینئر ساتھی خالد آفتاب تھے جنہوں نے بعد ازاں سٹریتھ کلائڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور گورنمنٹ کالج کے آخری پرنسپل اور اولین وائس  چانسلر بنے۔

اصل کہانی سناؤں تو پطرس بخاری نے ’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘ میں صبح چھ بجے بستر کے اندر نیم غنودگی میں خود سے گفتگو کرنے کی ایک دلچسپ مثال گنوائی تھی۔ یہی کہ امتحان کی تیاری کے لیے ورڈز ورتھ یا شیکسپیئر میں سے آج کس کا مطالعہ کریں۔ ”یہ معمہ اب مابعد الطبیعات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور درڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اِس میں نا معلوم کیا بھید ہے۔“یہ بھید تو اُس ایویں آدمی کی سمجھ میں نہیں آتے جس نے غیر ملکی ا سکالرشپ کے لیے طے شدہ طریقِ کار کے مطابق درخواست جمع کرائی، دستاویزات اپنی موزونیت کے اشتہار سمیت چسپاں کیں، پھر مقررہ تاریخ پر لاٹ صاحب کے دفتر میں محکمانہ سیکرٹری، دیگر افسران اور بیرونی ادارے کے نمائندے کے سامنے مطلوبہ (اور غیر مطلوبہ) قابلیت کا عکس ڈالا۔ پھر کیا ہوا؟

کہنا تو چاہیے کہ پھر آنکھ کھل گئی، پر یہ وہ مقام ہے جہاں  لاہور کے تعلیمی ڈائریکٹوریٹ اور لاٹ صاحب کے دفاتر کے ساتھ میرا بیڈمنٹن کا سہ فریقی میچ شروع ہو گیا۔ کھیل میں  تیزی آئی تو پتا نہیں چلتا تھا کہ اِس چڑی چھکے میں چڑی کون ہے اور چھکا کون ہے؟ حکم ملا کہ روانگی کے نوٹی فیکیشن سے پہلے اوریجنل درخواست سے منسلک کاغذات از سرِ نو پیش کیے جائیں۔ ساتھ ہی وظیفہ مِلنے کی مکمل شرائط، کالج کینٹین، لائبریری اور اسٹیٹ آفس سے کلیئرنس۔ نیزاسٹام پیپر پہ باقاعدہ تصدیق شدہ حلف نامہ کہ کورس کے اختتام پر وطن نہ لوٹنے کی صورت میں فدوی یا فدوی کا ضامن حکومتِ پاکستان کو تمام اخراجات واپس کرے گا۔ بیرونی اسکالر شپ پر تعلیم کے عمل میں ہماری حکومت کی مالی ذمہ داری ہے کیا؟ ”کمال کرتے ہیں آپ، ہم اپنا آدمی ’سپیئر‘ کر رہے ہیں ایک سال کے لیے، یہ کوئی مذاق تو نہیں۔“

یوں وطنِ عزیز کی قدیم ترین اعلیٰ در س گاہ کے ہیڈ کلرک صاحب نے چڑی چھکے کا کھیل ایشین سٹائل ہاکی میں تبدیل کر دیا۔امیدوار کاغذات کو ’کیری‘ کرتا ہوا انگریزی  کے صدر شعبہ کی سمت بڑھا۔ وہاں سے پرنسپل فضا الرحمان صاحب کو چھوٹا سا پاس، اور لمبی ہِٹ ڈائرکٹر آف ایجوکیشن کی جانب۔ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی ڈائرکٹر اور ڈائرکٹر، پھر سیکرٹیر یٹ کی ٹوئنٹی فائیو یارڈ لائن سے پہلے اسی ترتیب کے ساتھ یہی عمل ڈی پی آئی کے دفتر میں، جسے اردو میں سرشتہ دارِ تعلیم کہتے تھے۔ اب ’ری سٹرکچرنگ‘ ہو چکی ہے جس کی بدولت سر شتہ کے ایک کی بجائے دونوں سر ایک طرف ہیں اور نظر نہ آنے والے کچھ اعضا دوسری طرف۔ لاٹ صاحب کی ڈی  میں گھُس کر میرا ارادہ فیلڈ گول کرنے کا تھا مگر پنلٹی لگ گئی میرے خلاف۔    

”آپ کو اسکالر شپ کے لیے حکومت نے نامزد نہیں کیا بلکہ خود اپلائی کر کے میرٹ پر کامیاب ہوئے۔ ایسے سرکاری ملازم کو غیرملکی تعلیم کے دوران تنخواہ نہیں ملتی۔ باقی واپسی پر دیکھیں گے۔“ واپسی پر جو دلچسپ انکشاف ہوا وہ ہولناک بھی تھا۔ پتا چلا کہ اُن ہمکاروں کو، جو غیر ملکی تعلیم کے بغیر اب ’کم اہل‘ ہیں، ولایت پلٹ امیدوار سے زیادہ تنخواہ ملے گی۔ وجہ یہ کہ دونوں برس  دسمبر تک ولایت پلٹ کے  چھ چھ ماہ پورے نہیں ہوتے، لہٰذا دو سالانہ ترقیاں نہیں مِلیں گی۔ ”لیکن سر، بیِچ میں صدرِ پاکستان نے  مُوڈ میں آکر سب چھوٹے بڑے ملازموں کو ایک ایک اضافی انکریمنٹ بھی دی تھی۔“ ”دی تھی مگر اُس دن آپ اسکالر شپ پر تھے، ڈیوٹی پر نہیں تھے۔“ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ کسی بھی گریڈ کی حکومتی ملازمت ہو یا سڑک پر کرکٹ میچ کا پھنس پھنسا، ایویں آدمی ایویں ہی رہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *