Read Urdu Columns Online

Wo Mujh Se Khailte Rahe By Prof Tanvee Sadiq

وہ مجھ سے کھیلتے رہے

قتیل شفائی کہتے ہیں کہ صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز بکتی ہے وہ یہی ایمان کی گٹھریاں ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے ایمان کی حفاظت کر گئے۔ بدتریں حالات میں بھی استقامت دکھا گئے۔نہ بکے نہ جھکے، وہی صاحب کردار قرار پائے۔ مگر قحط الرجال ہے۔ صاحب کردار بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ لیکن وہ موجود ہیں، ان کی موجودگی ہی اس معاشرے کے زندہ ہونے اور رہنے کی دلیل ہے۔ انسان کو ہر روز اگر دس ایمان فروش ملتے ہیں تو ایک دو اہل ایمان ان کو حوصلہ دینے اور سچائی کی راہ سے بھٹکنے سے روکنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اہل ایمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کوئی مثبت کام نہیں کر سکتے۔ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔وہ معاشرے کے لئے برے نہیں تو سود مند بھی نہیں ہوتے۔موجودہ حالات کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوتی ہے۔ لوگ آپ کی سادہ دلی اور لاعلمی سے فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔کاروباری حضرات سے پالا پڑے تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔آپ کی کوئی چیز کبھی؎ خراب ہو جائے۔ دس آدمیوں کو بلائیں۔ دس مختلف نقائص کی نشاندہی کریں گے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہو گا کہ اصل نقص کیا ہے۔ پھر خرابی خود ڈال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ صحیح کرانے کے لئے مجھے منتخب کر لیں تو بھلا اور اگر کسی اور کو کریں تو چلیں میرے کسی بھائی کا ہی بھلا ہو جائے گا۔یہ ذہنیت عام آدمی کے لئے مزید مشکلات کا باعث اور بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پتہ نہیں میرے بچوں کا کیوں یہ خیال تھا کہ ایک خاص کمپنی کے اے سی بہت بہتر ہوتے ہیں۔ میرے گھر میں چھ سات اے سی اسی کمپنی کے ہیں اور سارے ہی انورٹر ہیں، گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم۔پچھلے ماہ میرے کمرے کا اے سی شاندار گرم ہوا دیتے دیتے ایک دم بند ہو گیا۔ اس کی سکرین پر L-3 لکھا آ گیا۔آدھ گھنٹے کے بعد چلایا تو ٹھیک تھا، پھر ایک گھنٹے بعد وہی صورت ہو گئی۔ اب وہ اسی طرح ایک گھنٹے کے لگ بھگ چلتا اور پھر L – 3 کا شکار ہو جاتا۔ میں نے کمپنی والوں کو فون کیا کہ بھائی یہ خرابی ہے ۔ کوئی بندہ بھیجیں ، ٹھیک کر جائے۔ اگلے دن کمپنی کا ایک نمائندہ آیا۔ اس نے AC کو سونگھا اور کہنے لگا کہ سروس کرائی تھی ۔ جی بالکل کروائی تھی ۔ اس نے کہا کہ سروس کرنے والوں نے باہر والے یونٹ کی سروس نہیں کی تھی، اس لئے یہ خرابی آئی ہے۔ میں بندہ بھیج رہا ہوں اسے تین ہزار دے دیں۔وہ چلا گیا تو اگلے دن اس کے بھیجے بندے آئے انہوں نے سروس کی ،تین ہزار وصول کیا اور واپس چلے گئے۔ ہم نے AC چلایا تو روز کی طرح ٹھیک چلا مگر وہی ایک گھنٹے کے بعد L – 3 ایک دفعہ پھر آن پہنچا۔ اب کیا کیا جائے۔ ایک دفعہ پھر کمپنی سے رابطہ کیا ۔ ایک نیا بندہ آیا۔ اس ساری بات بتائی۔ اس نے باہر کے یونٹ سے تھوری چھیڑ چھاڑ کی اور کہنے لگا۔ ٹھیک کر دیا ہے ، میرے فیس چھ سو روپے دے دیں۔ چھ سو وصول کرنے کے بعد وہ توچلا گیا مگر ایک گھنٹے بعد وہی صورت بحال نظر آئی۔ AC لگاتار ایک گھنٹے سے زیادہ چلنے کو تیار ہی نہیں تھا۔L – 3 پتہ نہیں کیا چیز تھی کہ ہمارا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھی۔اسی دوران ہم بچوں کا کمرہ ٹھیک کر رہے تھے کہ وہاں بھی AC کی ضرورت تھی۔ قریب ہی بحریہ ٹائون سے اس کمپنی کے ڈیلر سے ایک نیا AC خریدا۔کمپنی کے نمائندے وہ نیا AC فٹ کرنے آئے تو ہم نے بڑے دکھ کے ساتھ انہیں اپنی داستان الم سنائی۔ کہنے لگے آپ فکر نہ کریں ابھی اس AC کو فٹ کرنے کے بعد آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ نیا AC فٹ کرنے اور چلانے کے بعد وہ میرے کمرے کے AC کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدھے باہر والے یونٹ کو دیکھا اور اس میں سے ایک پرزہ نکال کر کہنے لگے۔ یہ خراب ہے ،اسے ٹھیک کرنا ہو گا۔ آپ کے آٹھ ہزار خرچ ہونگے اور آپ کو کل مل جائے گا۔ اگلے دن وہ واپس آئے، پرزہ لگایا اور ہم سے گیارہ ہزار روپے طلب کئے۔ میں نے کہا کہ بات آٹھ ہزار کی ہوئی تھی یہ گیارہ ہزار کیوں۔ بہت محنت ہوئی ہے، جائز پیسے مانگ رہے ہیں ، میں نے کہا چلو دے دیتا ہوں اسے چلا کر چیک کرا دو۔ کہنے لگے آپ چیک کرتے رہیں ہمیں تو پیسے دے کر فارغ کریں۔ میں نے انکار کر دیا کہ چیک کرنے سے پہلے پیسے کیسے دوں ۔ اگر پہلے جیسا ہی حال رہا ہوتو مجھے پیسے خرچنے کا فائدہ۔ میں نے اے سی آن کیا ۔ وہ پہلے ایک سے دو گھنٹے گرم کرتا تھا مگر وہ اب چلنے سے انکاری تھا۔میں نے پوچھا کہ یہ کیا ، کہنے لگے ،آپ کے AC میں گیس کم ہے۔دس ہزار گیس کے دے دیں ، کل اکیس ہزار میں آپ کا کام مکمل ہو جائے گا۔ آٹھ سے گیارہ اور اب اکیس ہزار۔ اس سے تو بہتر تھا کہ میں اسی طرح چلاتا رہتا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹا تو آسانی تک چلتا تھا۔ وہ پیسوں لینے پر بضد تھے مگر کس چیز کے پیسے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کمپنی سے بات کر کے پیسے دوں گا۔ کمپنی سے میں نے بات کی ۔اپنی داستان الم انہیں بتائی ۔ اسی روائیتی ہمدردی کے بعد کمپنی نے نوید دی کہ ہم اپنا نیا بندہ بھیج رہے ہیںجو آپ کی ساری مشکل دور کر دے گا۔ شام کو ایک نیا بندہ آ گیا اور آتے ہی اس نے کمرے کے اندر والا یونٹ کھولا اور کہا کہ اصل خرابی اس حصے میں ہے ۔یہ آپ کو بدلوانا پڑے گا۔ صرف چھبیس ہزار اور دس ہزار کی گیس۔ بس سمجھ لیں چھتیس ہزار خرچ ہو گا۔میں مزید پریشان کہ کچھ قصور ہو گیا ہے کہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔میں نے اسے پوچھا کہ اسی حالت میں بیچنا چاہوں تو کتنے کا بکے گا۔ میری بیگم نے مجھے کہا کہ آپ صحیح سوچ رہے ہیں اسے بیچ دینا ہی بہتر ہے۔ کمپنی کے نمائندے نے کہا کہ اس حالت میںپچیس سے تیس ہزار ملیں گے۔ میری بیگم کچھ جذباتی تھی ۔ کہنے لگی بیچیں نیا لے لیتے ہیں۔ میں ہنسا ، پچیس سے تیس ہزار میں بیچ کر ایک لاکھ پینسٹھ ہزار کہاں سے فوری آئیں گے۔ کمپنی کا نمائندہ کہنے لگا، تیس بھی میں دوں گا، بازار میں یہ بھی نہیں ملیں گے۔ میں نے کہا کہ میں کبھی بھی اس قیمت پر نہیں بیچوں گا۔ وہ نمائندہ چلتے چلتے ایک احسان کر گیا۔ کہنے لگا کہ آپ بیچیں یا نہ بیچیں آپ کی مرضی لیکن اب کسی اور کو بلا کر اپنے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہ دیں۔ گرم حصہ شاید اب نہ چلے ۔اس پر وقت ضائع نہ کریں اور نہ ہی کسی کو پیسے دیں۔ گرمیاں آ رہی ہیں ٹھنڈہ حصہ کام کرتا رہے گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *