Urdu Columns Today

Ye Lahore Nehi Bahawalpur Hai

یہ لاہور نہیں بہاولپور ہے

آپریشن تھیٹر کے باہر مریض کے انتظار میں بیٹھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔وہ لمحہ اور بھی کرب ناک ہو جاتا ہے۔جب اس وقت آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھنے والا کوئی اور نہ ہو۔آپ اکیلے ہی آپریشن تھیٹر کے باہر پریشان حال چکر پے چکر لگا رہے ہوں اورپھر انسان میری طرح اگر خود ڈاکٹر ہو۔آپریشن تھیٹر کے باہر سولی پر لٹکا ہو کہ کب مریض کا آپریشن مکمل ہو گا؟کب مریض ہوش میں آئے گا؟ناقابل بیان ہے۔خاکسار چھ بار آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھنے کے عمل سے گزر چکا ہے۔پہلی بار تب بیٹھا، جب بچے کے ٹانسلز کی سرجری پروفیسر ڈاکٹر سمیع ممتاز نے پرائیویٹ اسپتال میں کی۔ دوسری بار تب بیٹھا، جب مسز کی سرجری ڈیفنس لاہور کے مشہور اسپتال سے ہوئی۔ تیسری بار تب بیٹھا، جب مسز کے پتہ کی لیپروسکوپک سرجری سر گنگا رام اسپتال میں سپر سرجن پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل نے کی۔آپ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔خاکسار کو تینوں سرجریز میں آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھنے کی ٹینشن تو ہوئی مگر چوتھی بار آپریشن تھیٹر کے باہر تب بیٹھا، جب 2019 میں ابا جی حضور کی برین ٹیومر سرجری لاہور کے پرائیویٹ اسپتال میں ہوئی۔اس وقت کو ابھی تک فراموش نہیں کر سکا ہوں۔

مجھے بطور ڈاکٹر سب سے زیادہ ٹینشن مریض کو دئے جانے والے جنرل انستھیزیا یعنی بے ہوشی کے حوالے سے ہوتی ہے۔بعض اوقات مریض سیریس ہو جاتے ہیں۔یہ سوچ کر جان نکلتی تھی۔باقی میں نے کبھی بھی سرجنز کی قابلیت پر سوال نہیں اٹھایا۔سرجن ہمیشہ جان لگا کر ہی سرجری کرتے ہیں۔خیر بات ہو رہی تھی۔ابا جی کی نیورو سرجری کی۔میں نے صبح 8 بجے آپریشن تھیٹر کے باہر ابا جان سے کہا۔

ابو جی!اللہ کے حوالے، وہ رب جانے، وہ سب جانے،ابا جی سے ان گزارشات کے ساتھ 5 گھنٹے جس طرح میں نے آپریشن تھیٹر کے باہر ذکر و اذکار کے ساتھ گزارے۔اللہ ہی جانتا ہے۔ آپریشن کے بعد کنگ آف نیورو سرجری پروفیسر ڈاکٹر انجم حبیب وہرہ نے سرجن روم میں سرجری بارے بتایا کہ سارا ٹیومر یعنی کینسر کی رسولی نکال دی ہے۔ابا جی 2 دن آئی سی یو میں رہے، وہ 2 دن میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے، 24 گھنٹے میں صرف دو، چار منٹ کے لئے ہی آئی سی یو کے اندر جانے کی اجازت تھی۔پانچویں بار آپریشن تھیٹر کے باہر تب بیٹھا، جب بیٹے کے ختنہ کے لئے چلڈرن اسپتال لاہور کے درشن کرنا پڑے۔

راقم اپنے ٹیچر پروفیسر ڈاکٹر سلیم ایم ڈی چلڈرن اسپتال لاہور اور کلاس فیلو ڈی ایم ایس ایڈمن ڈئیر ڈاکٹر اسد زین کی شفقت بھلا نہیں پایا تھا کہ پچھلے ہفتے مسز کی سرجری کے لئے بہاولپور جانا پڑا۔اس سے پہلے ایک دن کے وقفہ کے ساتھ زوجہ محترمہ کو تین عدد پیک سیل انتقال خون کرائے تاکہ بیماری کی وجہ سے ہیموگلوبن کی کمی کو پورا کیا جا سکے پھر مرحلہ لیبارٹری ٹیسٹوں کا آن پہنچا، ہمیشہ کی طرح برادرم عرفان حفیظ سینئر سیلز منیجر چغتائی لیب کے تعاون سے ڈسکاؤنٹ کے ذریعے یہ ممکن ہو سکا کیونکہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی لیب میں آٹوامیون مرض کے ٹیسٹ کرنے کی مشینری ہی دستیاب نہیں ہے۔

خاکسار چونکہ قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے فارغ التحصیل ہے۔اسی لئے ہم ٹیچر آف ٹیچرز پروفیسر فاروق احمد کے حضور حاضر ہوئے۔سر فاروق بہاول وکٹوریہ اسپتال سے ریٹائرمنٹ کے بعد آجکل شاہدہ اسلام میڈیکل کالج لودھراں شعبہ جراحی یعنی سرجری کو ھیڈ کر رہے ہیں۔مجھے دوستوں نے کہا۔یار لوگ بہاولپور سے لاہور آتے ہیں۔تم لاہور سے بہاولپور سرجری کروانے جا رہے ہو۔میں نے اپنے لاہوری دوستوں سے کہا۔پروفیسر فاروق احمد پوری دنیا میں صرف ایک ہی شخص ہے۔آپ سرجری کی مکمل لائبریری، انسائیکلوپیڈیا اور علم کے سمندر تو ہیں ہی، آپ مخلصی، عاجزی و ایمان داری کی عمدہ مثال ہردل عزیز شخصیت ہیں۔آپ سے ملنے کے بعد ساری پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ہم بروز ہفتہ شام میں بہاولپور پہنچے۔

 استاد محترم پروفیسر فاروق نے مسز کا چیک اپ کیا، ماہر فزیشن سے کیس ڈسکس کیا اور پیر شام کو سرجری پلین کر لی۔اگلی صبح اتوار میں نے لگے ہاتھوں اپنے آبائی علاقے خیرپور ٹامیوالی آئی کیمپ میں سینکڑوں مریضوں کا معائنہ کر کے مصیبتوں سے آسودگی کا سامان سمیٹا اور ساتھ ہی امی جان کی قبر پر حاضری دی۔پیر شام زبیر اسپتال جھانگی والا روڈ بہاولپور آ کر داخل ہو گئے۔مغرب کے بعد سرجری کے لئے مسز کو آپریشن تھیٹر شفٹ کر دیا گیا۔یہ ناچیز تن تنہا آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا ذکر کئے جا رہا تھا۔آدھ، پون گھنٹے بعد سر آپریشن تھیٹر سے باہر آ گئے۔مجھے آپریشن بارے مکمل بریف کیا۔اب میں پھر آپریشن تھیٹر کے باہر مسز کے لئے منتظر تھا جنھیں ماہر بے ہوشی واپس ہوش میں لا رہی تھی۔خیر تھوڑی دیر میں ہی مسز کو کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔آدھے گھنٹہ گزرنے پر وہ مکمل ہوش میں آ گئی۔اگلے دن سہ پہر سر فاروق نے مسز کو آپریشن کے حوالے سے ادویات اور احتیاطیں بتا کر ڈسچارج کر دیا۔میں نے اسپتال کے استقبالیہ پر جب بل پے کیا۔معلوم ہوا۔پروفیسر فاروق نے اپنی فیس چارج نہیں کی۔

میں نے سر سے فیس چارج کرنے کے بابت مودبانہ گزارش کی۔استاد محترم جناب پروفیسر فاروق نے یہ کہہ کر مجھے لاجواب کر دیا۔جاوید یہ لاہور نہیں بہاولپور ہے۔میں سر کی بات سن کر دم بخود رہ گیا کیونکہ لاہور میں پیسے پہلے لئے جاتے ہیں اور بات بعد میں کی جاتی ہے۔آپ بھلے سے ڈاکٹروں کے پیٹی بھائی ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوں۔

مجھے اس وقت لاہور میں بچے، مسز اور ابا جی حضور کے آپریشن کی مد میں لئے گئے لاکھوں روپے بھی یاد آ گئے اور تو اور لاہور میں آپریشن تھیٹر کے باہر آیا، وارڈ بوائز کے فوج ظفر موج نے جس طرح میری جیب بخشیش کے نام پر خالی کرائی تھی۔راقم بہاولپور میں اس قبیح حرکت کو ڈھونڈتا ہی رہ گیا۔خاکسار ان تمام معاملات کو لیکر اپنا ذاتی تجربہ اس لئے شئیر کر رہا ہے کہ میڈیکل پروفیشن میں رکھ رکھاؤ، ایک دوسرے کی دید، لحاظ ناپید ہو چکا ہے، شاید پیسہ ہی مذہب کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔فی زمانہ بہت ہی کم، آٹے میں نمک کے برابر احساس کرنے والے ملتے ہیں۔  افسوس ناک امر تو یہ ہے۔ڈیجیٹل میڈیا کے اس بھیانک دور میں لوگوں کے پاس دوسروں کا حال پوچھنے تک کا وقت ہی نہیں بچا ہے یعنی مطلب کی دنیا میں اچھی روایت اور اخلاقیات بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں۔ ان تمام باتوں کا احساس تب ہوتا ہے۔جب آپ کی فیملی کا اپنا کوئی فرد بیمار ہوتا ہے۔نفسا نفسی کے عالم میں کسی کی ایک فون کال، تسلی، دلاسہ، دعا، کسی کا یہ پوچھنا، پیسے بھجوا دوں، بہت ہی پیارا، اچھوتا، منفرد اور دل پر انمٹ نقوش چھوڑنے والا عمل ہوتا ہے۔مشکل کی اس گھڑی شجر سایہ دار بننے والے اللہ لوک خدا کی تخلیق کا بہترین نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔میری دعا ہے۔اللہ پاک ہمیں دنیا و آخرت میں ایسے فرشتہ صفت انسان دوستوں کا ساتھ نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *