زمین اللہ کی، مسلمانو، توبہ اور اسی سے مانگو
امریکی صدر ٹرمپ تاجر ہیں اور ہر بات و کام کو نفع نقصان کی بناء پر پرکھتے ہیں۔ہمیں اِس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہے لیکن ملکی اور بین الاقوامی امور میں ان کا رویہ تاجرانہ ذہنیت سے بھی الگ ہے اور دوسری بار منتخب ہونے کے بعد انہوں نے عالمی تھانیدار کی حیثیت اختیار کر لی اور ان کا انداز ایسا ہے کہ کمزوروں کے لئے قہر ثابت ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا رویہ تعصب پر مبنی ہے، حالانکہ ایک شکست کے بعد پھر سے بھاری اکثریت حاصل کرنے پر ان کو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ کئی فوجداری مقدمات اور الزامات کے باوجود ان کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا،بلکہ امریکہ کی ایک عدالت نے منتخب ہو جانے کی بناء پر ان کو جیل کی سزا بھی نہ دی۔ شاید انہی وجوہات کی بناء پر وہ خود کو اوتار سمجھنے لگ گئے ہیں۔ یہ سب عیاں ہے،لیکن میری نظر میں یہ ٹرمپ بھی قیامت والی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ عیسائی ہوتے ہوئے صیہونی ہو گیا اور یہ بھی ان سب کی صفوں میں شامل ہے جن کے آباء نے نافرمانی کی حد کی اور راندہ درگاہ ٹھہرے وہ اسرائیل پر قابض صیہونی دہشت گردوں سے بھی چار ہاتھ آگے بڑھ گیا اور غزہ کی سرزمین سے فلسطینیوں کو نکال کر زمین خریدنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ غزہ کو امریکی تفریحی بستی بنائیں گے اور پھر ساتھ ہی ساتھ بات نہ ماننے کی بناء پر حشر کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کی شہ پر نیتن یاہو بھی مسلسل برائی پر اُترا ہوا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک نے اس بار بھی کوئی اہم فیصلہ نہیں کیا اور مذمت اور منصوبے کی مخالفت پر اکتفا کیا جا رہا ہے اور او آئی سی کا اجلاس بلانے والی تجویز پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کی بجائے عرب لیگ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، حالانکہ ہم سب کو اپنے بزرگوں کے اقوال ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور متحد قوت بن کر سامنے آنا چاہئے اور موثر جواب کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔ٹرمپ کی جیت اور اس کے بعد کی کارروائیوں سے اب تک اندازہ ہو جانا چاہئے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے، روس سے دوستی، یوکرین جنگ بند اور چین سے اچھے تعلقات کا تو اعلان کیا جا رہا ہے،لیکن ہمارے خطے کے لئے وہ دونوں ایمان اور عوام دشمن اقدامات پر تُلا بیٹھا ہے، مودی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران بھارت کو اربوں روپے کا جدید ترین اسلحہ معہ ایف35 فوجی طیارے دینے کے ا علان سے اس نے اپنی نیت ظاہر کر دی ہے، پاکستان نے بجا طور پر احتجاج کیا ہے کہ امریکہ یہاں طاقت کا توازن بگاڑ رہا ہے۔
ایسی صورتحال پورے خطے کے امن کے لئے خطرے کا باعث ہے کہ مودی پہلے ہی سے امن دشمن کارروائیوں میں ملوث ہے اور بھارت میں خالص ہندوتوا حکومت کے لئے اقدامات کرتا چلا جا رہا ہے،مسلمان تو مسلمان بھارت میں سکھ اور عیسائی بھی محفوظ نہیں اور اقلیتیں شودروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ راشٹر سیوک سنگھ والے قتل، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی زندگی اور غزہ والوں کی حیات سولی پر لٹکی ہوئی ہے،دنیا خاموش تماشائی بنی تماشہ دیکھ رہی ہے۔
ہم پاکستانیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو ہم کئی قسم کے عذابوں میں مبتلا ہیں، بھارت حریف بن کر پوری بدمعاشی پر اُترا ہوا ہے۔افغانستان سے ٹھنڈی ہوا کی جگہ تحریک طالبان کی دہشت گردی ہو رہی ہے،ہم معاشی طور پر خود کو دیوالیہ پن سے روک لینے کے بعد اب نئی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ آئی ایم ایف ہوّا بن کر مسلط ہے کہ ہم ان کی ہدایت لینے پر مجبور بھی ہیں،لیکن دُکھ اِس بات کا ہے کہ اس ساری صورت حال کا ہم سب کو ادراک ہی نہیں ہے، آپس میں دست و گریبان ہیں، حالانکہ یہ وقت بھی1965ء والا ہے جب تمام تر تحفظات کے باوجود پوری قوم نے سیاسی اختلاف اور کشمکش کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل اتحاد کا ثبوت دیا تھا حتیٰ کہ جرائم رُک گئے اور فوجداری کرنے والوں نے بھی رویے تبدیل کر لئے تھے۔ یوں اللہ نے مدد کی اور ہماری مسلح افواج اور عوام نے باہمی تعاون سے دشمن کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا،لیکن آج جب خطرات زیادہ بڑھ گئے ہیں تو ہم بکھرے بکھرے محاذ آرائی کر رہے اور اتفاق رائے کے قائل نہیں ہو رہے!
ان حالات میں ہم کسی کو کیا کہیں خود جذبہ الوطنی سے دور ہو گئے ہیں، حالانکہ تو بہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا ہم سب کو اجتماعی طور توبہ کرنی چاہئے اور اندرونی اختلافات کو سیز فائر کرکے نظر کر کے فائنل کے لئے تیاری کرنا چاہئے اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ ایک کل جماعتی اتحادی کانفرنس بُلا کر پاکستان اور افواجِ پاکستان کی کھلی حمایت اور مکمل اتفاق رائے کا اعلان کرنا چاہئے۔
اِس وقت دنیا کے حالات مواقف نہیں ہیں، میرے خیال میں اسلامی دنیا کا ایک بڑا اجلاس حالیہ صورتحال کے تناظر میں ہونا اور اس میں تمام پہلوؤں پر غور کر کے جہاد کے لئے تیار کرنا چاہئے کہ دشمنانِ دین و اسلام سے کسی بھی وقت ٹکراؤ ممکن ہے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے عرض کر چکا کہ حالات موافق نہیں اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہر قسم کی مخالفت کو ترک کر کے متحد ہو جائیں اور دشمن کے ارادے خاک میں ملا دیں۔
چلتے چلتے! شاہینو کا ذکر بھی کر لیں،نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کی جیت کی تعریف کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ کیوی نمبرون ٹیم ہے جس کے پاس قابل ِ بھروسہ کھلاڑی ہیں، ان کی ٹیم میں آل راؤنڈرز کی بھرمار ہے جبکہ ہماری ٹیم یقینی قابل بھروسہ کھلاڑیوں سے محروم اور قابل فخر کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہیں، فائنل میچ میں یہ سب ظاہر ہو گیا۔ہمارا ٹاپ آرڈر اور لوئر آرڈر فیل ہوا، جبکہ مڈل آرڈر بھی کچھ نہ کر سکا، ہدف کے بارے سوچتے ہی رہے۔ نیوزی لینڈ اچھا کھیلی، جیت اس کا حق تھی جو اُسے مل گئی۔ قومی حالات کے اثرات ادھر بھی ہیں میرے خیال میں اگر تبدیلی ممکن ہو تو کم از کم خوشدل شاہ اور سعود شکیل جیسے حضرات کو تبدیل کر ہی دینا چاہئے۔ فاسٹ باؤلر ذرا بہتر ہوئے لیکن شاہین جیسی پرفارمنس سے محروم رہے۔ اگلے ٹورنامنٹ سے قبل تیاری کے لئے پچھلی غلطیوں کا ازالہ ہونا چاہئے۔